Saturday 8 June 2013


عنہ کی طر سے تین صورتیں پیش ہوتی ہیں یعنی یہ کے یا مجھے مکہ واپس جانے دو یا مجھے کسی اسلامی سرحدوں کی طرف جانے دو کہ میں کفار کے خلاف جہاد وقتال میں اپنی زندگی گزاروں یا میرا رستہ چھوڑ دو میں دمشق چلا جاوں، میں یزید سے اپنامعاملہ خود طے کرلوں گا لیکن اب گھیرا تنگ ہوگیا اور صورت حال یکسر بدل گئی ہے یہ بھی خوب جان لیجئے کہ اس کی اصل وجہ کیا تھی؟؟؟ِ۔۔۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے میدان کربلا میں ابن زیاد کے بھیجئے ہوئے لشکر کے سامنے جو خطبات دیئے اس میں انہوں نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ میرے پاس کوفیوں کے خطوط موجود ہیں جنہوں نے مجھے یہاں آنے کی دعوت دی تھی انہوں نے اس کوفی فوج کے بہت سے سرداروں کے نام لے لے کر فرمایا کے افلاں ابن فلاں یہ تمہارے خط ہیں کہ نہیں؟؟؟۔۔۔ 
جن میں تم نے مجھ سے بیعت کرنے کے لئے کوفہ آنے کی دعوت دی تھی اس پر وہ لوگ براءت کرنے لگے کہ نہیں ہم نے یہ خطوط نہیں بھیجے اب انکی جان پر بنی ہوئی تھی کیونکہ مصالحت کی صورت میں حکومت وقت سے ان کی غداری کا جرم ثابت ہوجاتا ہے جنگ جمل اور جنگ صفین کے واقعات یاد کیجئے جہاں بھی مصالحت کی بات ہوگی وہیں سبائی فتنہ آڑے آئے گا جو اس سارے انتشار وافتراق اور خانہ جنگیوں کا بانی رہا ہےمصالحت کی صورت میں تواُن کا کچا چٹھا کھل جاتا اور معلوم ہوجاتا کے دوستی کے پردوں میں رہ کر کون دشمنی کرتا رہا ہے اور وہ کون ہیں جو سادہ لوح عوام کو دھوکا دے کر اور خواص کوبہلا پھسلا کر مسلمان کو مسلمان کے خلاف محاذ آرا کرتے ہیں۔۔۔ 
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس کوفیوں کے بوریوں بھرے خطوط تھے مفاہمت کی صورت میں جب یہ سامنے آئے تو اُں کا حشر کیا ہوتا اس کو اچھی طرح آج بھی سمجھا جاسکتا ہے نتیجہ یہ ہوا کے ان سرداروں اور ان کے حواریوں نے مصالحت ومفاہمت کا سلسلہ جاری رہنے نہیں دیا اور عمروبن سعد کو مجبور کردیا کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے شرط پیش کرے کہ یا تو غیر مشروط طور پر گرفتاری دے دیں ورنہ جنگ کیجئے۔۔۔ یہ سازشی لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مزاج سے اتنے ضرور واقف تھے کہ ان کی غیرت وحمیت غیر مشروط طور پر حوالگی کے لئے تیار نہیں ہوگی اور فی الواقع ہوا بھی یہی۔۔۔ یہاں یہ جان لیجئے کے معاملہ تھا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اُن کی غیرت اُن کی حمیت اُن کی شجاعت اس توہیں وتذلیل کو ہرگز گوارنہ کرسکتی تھی لہذا انہوں نے غیرمشروط گرفتاری دینے سے انکار کردیا اور مسلح تصادم ہوکر رہا جس کے نتیجے میں سانحہ کربلا واقع ہوا داد شجاعت دیتے ہوئے آپ کے ساتھی شہید ہوئے آپ کے اعزہ واقارب نے اپنی جانیں نچھاور کیں اور آپ نےبھی تلوار چلاتے ہوئے اور دشمنوں کو قتل کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔۔۔ 
ان اللہ وانا الیہہ راجعون۔۔۔ 
یہ ہے اصل حقیقت اس سانحہ فاجعہ کی اصل سازشی ذہن کو پہچانئے جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلافات کا افسانہ جس نے بھی تراشا ہے بڑی عیارانہ مہارت سے تراشا اور گھڑا اس افسانے سے حقائق گم کردیئے گئے ہیں اب ہوتا یہ ہے کہ بجائے اس کے اصل مجرم کو پوائنٹ آؤٹ کیا جائے کوئی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر تنقید کا ہدف بناتا ہے تو کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس طرح یہ دونوں فریق اس سازشی سبائیوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اس لئے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شخصیت مجروح ہوتی ہے تو بھی ان کا کام بنتا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی مجروح ہوتی ہے تو بھی ان کے پوبارہ ہوتے ہیں یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کون ہیں؟؟؟۔۔۔ 
یہ ہیں ذوالنورین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوہرے داماد اور یکے بعد عشرہ مبشرہ اور یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کون ہیں؟؟؟۔۔۔ 
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب اور یکے از عشرہ مبشرہ۔۔۔ 
ان دونوں میں سےکسی کی بھی شخصیت مجروح ہوتی ہے تو اس کی زدپڑتی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر جو ان دونوں کے مزکی ومربی تھے ان شخصیتوں میں اگر نقص اور عیب مانا جائے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت پر حرف آئے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت مبارکہ مجروح ہوگی افسوس کہ آج بھی اُن سبائیوں کا کام دونوں طرف سے بن رہا ہے۔۔۔ 
خوب جان لیجئے کہ ایسے تمام لوگ چاہے وہ اس کا شعور رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں سبائی ایجنٹ ہیں ہماراموقف یہ ہے کہ
‘‘ الصحابہ کلھم عدول‘‘ کوئی بدنیتی اور نفسانیت نہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں تھی نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں نہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں نہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ میں نہ حضرت عمرو بن العاص میں تھی نہ حضرت ابوموسی العشری میں نہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ میں تھی نہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ میں یا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رضوان اللہ علیھم اجمعین میں ہاں ایک فتنہ تھا جس نے ہر مرحلے پر جب بھی مصالحت ومفاہمت کی صورت پیدا ہوتی نظر آتی اس کو تار پیڈو کیا اور اس کی بجائے ایسی نازک صورت حال پیدا کردی کے کشت خون ہو مسلمان ایک دوسرے کی گردنوں پر تلواریں چلائیں فتنہ اور بھڑکے حق کے سیلاب کے آگے بند باندھا جاسکے ‘‘ تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا ‘‘ والی صورت ختم ہوسکے چنانچہ کون انصاف پسند ایسا ہوگا جو نہ جانتا ہو کہ حضرت ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت سے لے کر کربلا کے سانحے فاجعہ تک مسلمانوں کی آپس میں جومسلح آویزیش رہی اس میں درپردہ ان سبائیوں ہی کا ہاتھ تھا مستند تواریخ اسحقیقت پر شاہد ہیں البتہ ان کو نگاہ حقیقت بین اور انصآف پسندی کے ساتھ پڑھان ہوگا جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فتح ہوئی آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟؟؟۔۔۔
بالکل وہی جو ایک بیٹے کو ماں کے ساتھ کرنا چاہئے چالیس خواتیں اور حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لشکر کے معتبر ترین لوگوں کے ہمراہ پورےادب واحترام کے ساتھ اُن کو مدینہ منورہ پہنچادیا۔۔۔ 
معلوم ہوا کہ نہ ذاتی دشمنی تھی نہ بغض وعناد۔۔۔ اور ادھر کیا ہوا؟؟؟۔۔۔
معاذ اللہ ثم معاذ اللہ 
یزید نے خاندان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواتین کو اپنی لونڈیوں بیایا؟؟؟۔۔۔ 
آخر وہ دمشق بھیجی گئیں لیکن وہاں کیا ہوا؟؟؟۔۔۔ 
ان کا پورا احترام کیا گیا ان کی دلجوئی کی گئی ان کی خاطر ومدارات کی گئی یزید نے انتہائی تاسف کا اظہار کیا اور کہا کہ ابن زیاداس حد تک نہ بھی جاتا تو بھی اس سے راضی رہ سکتا تھا کاش وہ حسین رضی اللہ عنہ کو میرے پاس آنے دیتا ہم خود ہی باہم کوئی فیصلہ کر لیتے۔۔۔ لیکن کربلا میں جو کچھ ہوا وہ اس فتنے کی وجہ سے ہوا جو کوفیوں نے بھڑکایا تھا۔۔۔
وہ اپنی دوعملی اور مافقت کی پردہ پوشی کے لئے نہیں چاہتے تھے کے مصالحت ومفاہمت کی کوئی صورت پیدا ہو ان کو جب محسوس ہوا کہ ہماری سازش کا بھانڈا پھوٹ جائے گا تو انہوں نے وہ صورتحال پیدا کردی جو ایک نہایت دردناک اور الم انگیز انجام پر منتج ہوئی۔۔۔ 
یہ سانحہ فاجعہ انتہائی افسوس ناک تھا اس سے کون اختلاف کرسکتا ہے اس نے تاریخ پر جو گہرے اثر ڈالے ہیں وہ اظہر من الشمن ہیں اس کڑوے اور کسیلے پھل کا مزہ اُمت چودہ سوسال سے چکھتی چلی آرہی ہے ان دو واقعات یعنی شہادت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور شہادت حسین رضی اللہ عنہما کی وجہ سے ہمارے درمیان افتراق، انتشار، اختلاف اور باہمی دست وگریباں ہونے کی جوفضا چلی آہی ہے اس پر اُن لوگوں کے گھروں میں گھی کے چراغ جلتے ہیں جنہوں نے اس کی بنیاد ڈالی جہاں جہاںاس کے اثرات پہنچے درحقیقت کامیابی ہوئی ہےان کو جو دراصل ان فتنوں کی آگ کو بھڑکانے والے تھے اب کوئی یزدی کے نام کو گالی بنائے پھرت ہے کسی نے ثمر کے نام کو گالی بنایا ہوا ہے کوئی عمربن سعد کے نام کو گالی بنائے ہوئے یہاں تک بات پہچنی ہے لوگ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں بھی توہین آمیز اور گستاخانہ انداز اختیار کرنے سے نہیں چوکتے اللہ تعالی ایسے سب لوگوں کو ہدایت دے اور ہمیں ان میں شامل وہنے سے بچائے اور اپنی پناہ میں رکھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک کو ہمیشہ نظر رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔۔۔ اللہ فی اصحابی لاتتخذوھم غرضا من بعدی فمن احبھم فبحبی احبھم ومن ابغضھم فبیغضی ابغضھم وما علینا الالبلاغ۔۔۔

--------------- ­ ­ ­--------------

مزید پوسٹس دیکھنے کے لیے خود بھی یہ پیج جوائن کریں اور دوست احباب کو بھی دعوت دیں کہ یہ پیج جوائن کریں.

اس تعاون پر
آپ کا
بہت مشکور رہونگا.
فقط آپ کا مخلص
dervish baba

No comments:

Post a Comment