Monday 10 June 2013


{{{{عورت کی دبر میں وطی کرنے کے بارہ میں اقوال }}}}
:
عورت کی دبر میں وطی کرنا کبرہ گناہ ہے اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فاعل پرلعنت کی ہے ۔

ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جوبھی اپنی بیوی کی دبر میں وطی کرے وہ ملعون ہے )
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2162) ۔
یہ توتھی اس شخص پر لعنت جواپنی بیوی کی دبر میں وطی کرے توجوکسی اجنبی عورت کی دبر میں کرے اس کےبارہ میں کیا ہوگا ؟

ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جوشخص کسی حائضہ عورتیا پھر عورت کی دبر میں وطی کرے یا کسی کاہن کے پاس جاۓ تواس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ ( دین ) کے ساتھ کفر کا ارتکاب کیا )
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 135 ) ۔

اوراگر خاوند اپنی بیوی کے ساتھ دبرمیں وطی کرنے پر اتفاق کرلیں اور تعزير لگاۓ جانے کے باوجود بھی باز نہ آئيں توان دونوں کے درمیان علیحدگی کردی جاۓ گی
۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا :

ایسے شخص کا کیا حکم ہے جواپنی بیوی سے دبرمیں وطی کرتا ہے ؟

توان کا جواب تھا :
کتاب وسنت کے مطابق عورت کی دبرمیں وطی کرنا حرام ہے ، اورجمہورعلماء سلف اوربعد میں آنے والوں کا بھی یہی قول ہے ، بلکہ یہ لواطت صغری ہے ،
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمايا :

( بلاشبہ اللہ تعالی حق بیان کرنے سے نہيں شرماتا ، تم اپنی بیویوں کی دبر میں وطی نہ کیا کرو )
۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :

{ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں ، اپنی کھتیوں میں جس طرح چاہو آؤ }
البقرۃ ( 223 ) ۔
اورکھیتی بچے کی جگہ ہے کیونکہ کھیتی کاشت اوربونے کی جگہ ہوتی ہے ، اوریھودیوں کا کہنا تھا کہ جب خاوند بیوی کی دبر میںوطی کرے تواولاد بھینگی پیدا ہوتی ہے تواللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمادی ، اورمرد کے لیے مباح قرار دیا کہ عورتکی فرج میں جس طرف سے مرضی جماع کرے ۔
اورجس نے بھی بیوی کی دبر میں وطی کی اوربیوی نے بھی اس کی اطاعت کی تودونوں کوتعزیر لگائی جاۓ گی ، اوراگر تعزیر کے بعد بھی وہ باز نہ آئيں توجس طرح فاجراورجس کے ساتھ فجور کا ارتکاب کیا گیا ہوان کے درمیان علیحدگی کردی جاتی ہے اسی طرح ان دونوں کےدرمیان بھی علیحدگي کردی جاۓ گی ۔
واللہ تعالی اعلم ۔ دیکھیں الفتاوی الکبری ( 3 / 104 - 105 ) ۔

اوراجنبی عورت کی دبر میں وطی کرنے کے مسئلہ میں علماء کرام کا اختلاف ہے کہ آیایہ زنا ہے کہ لواطت ؟

دیکھیں المبسوط ( 9 / 77 ) الفواکہ الدوانی ( 2 / 209 ) مغنی المحتاج ( 5 / 443 ) الانصاف ( 10 / 177 ) الفروع ( 6 / 72 ) ۔
اورشیخ سعدی رحمہ اللہ تعالی نے جو قول اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ : اجنبی عورت کی دبر میں وطی زنا شمار کیا جاۓ گا ، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ : زنا یہ ہے کہ قبل یا دبر میں فحش کام کیا جاۓ ۔ ا ھـ دیکھیں منھج السالکین ص ( 239 )
۔
ہم اللہ سبحانہ وتعالی سے دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں ان فحش کاموں سے محفوظ رکھے اورہمارے دلوں کوایسی فحش قسم کے غم وسوچ صاف کرے اورہمیں اپنے دین اور حکم پر ثابت قدمی نصیب فرماۓ ۔ آمین ۔
مزید پوسٹس دیکھنے کے لیے خود بھی یہ پیج جوائن کریں اور دوست احباب کو بھی دعوت دیں کہ یہ پیج جوائن کریں.
http://dervishroohani.blogspot.in

Sunday 9 June 2013


**((اگر کسی کو اپنا تبادلہ مطلوب ہو ))**:

۔
جو شخص اپنا کہیں تبادلہ کرانا چاہے تو اسے چاہئے کہ11 روز تک اول آخر گیارہ گیارہ بار درود شریف پڑھےاور درمیان میں یہ مندرجہ ذیل آیات 1000 بار پڑھے انشاءاللہ تبادلہ ہو جائے گا ۔
بسم اللہ الرحمن ا لرحیم
یا ایھاالذین امنو اتقو اللہ وذروما بقی من الربی ان کنتم مؤمنین ۔

**((اگر کسی کو اپنا تبادلہ مطلوب ہو ))**:

۔
جو شخص اپنا کہیں تبادلہ کرانا چاہے تو اسے چاہئے کہ11 روز تک اول آخر گیارہ گیارہ بار درود شریف پڑھےاور درمیان میں یہ مندرجہ ذیل آیات 1000 بار پڑھے انشاءاللہ تبادلہ ہو جائے گا ۔
بسم اللہ الرحمن ا لرحیم
یا ایھاالذین امنو اتقو اللہ وذروما بقی من الربی ان کنتم مؤمنین ۔

ناخن پر حاضرات


کافور کی سیاہی اپاڑ کر اس میں عطر ملا کر کسی نا بالغ بچے کے ناخن یا ہتھیلی پر سیاہی لگائیں اور اس سیاہی پر چالس مرتبہ اس عزیمت کو پڑھ کر دم کریں بچے کے ہاتھ میں سیاہی لگانے کے بعد مندرجہ ذیل عزیمت کو لاتعداد مرتبہ پڑھتے رھیں انشااللہ چند منٹ میں حاضرات ھونگی چار موکل لڑکے کو نظر آئیں گے جو اسکے سوالوں کا جواب دیں گے
عزیمت یہ ھے!
یَا ھُوَ یَا ھُوَ یامَن ھُو یامَن لَیسَ لَہُ اِلاَ ھوُ

قبل از عمل اجازت لینا ضرری ھے

Saturday 8 June 2013

ایک سے زیادہ شوہروں کی ممانعت کیوں؟



’’اگر اسلام ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دیتا ہے تو وہ ایک عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت کیوں نہیں دیتا؟‘‘

بہت سے لوگ جن میں بعض مسلمان بھی شامل ہیں اس امر کی دلیل مانگتے ہیں کہ جب ایک مسلمان مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے تو یہی ’’حق‘‘ عورت کو کیوںنہیں دیا گیا؟

سب سے پہلے میں یہ کہوں گی کہ اسلامی معاشرے کی بنیاد عدل اور مساوات ہے۔ اللہ نے مرد اور عورت کو برابر پیدا کیا ہے لیکن مختلف صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کے ساتھ۔ مرد اور عورت جسمانی اور نفسیاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اس لیے کہ ان کے کردار اور ذمہ داریاں بھی مختلف ہیں۔ مرد اور عورت اسلام میں برابر ہیں لیکن ہو بہو ایک جیسے نہیں۔


سورئہ نساء کی آیات 22 تا 24 میں ان عورتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن سے مسلمان مرد شادیاں نہیں کر سکتے، مزید برآں آخری آیت 24 کے مطابق ان عورتوں سے بھی شادی ممنوع ہے جو’’ شادی شدہ ‘‘ہوں۔ مندرجہ ذیل نکات یہ حقیقت واضح کرتے ہیں کہ اسلام عورت کو ایک سے زیادہ مرد رکھنے سے کیوں روکتا ہے

٭ اگر ایک آدمی کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان سے پیدا ہونے والے بچوں کے ماں باپ کی آسانی سے شناخت ممکن ہے۔ اس صورت میں بچے کی ماں اور باپ کی پہچان ہو سکتی ہے۔ ایک سے زیادہ شوہر ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے بچوں کی ماں تو معلوم ہوتی ہے مگر باپ کا پتہ نہیں چل سکتا۔ اسلام ماں اور باپ دونوں کی پہچان کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے نزدیک جو بچے اپنے والدین کو نہیں جانتے، خاص طور پر اپنے باپ کو، وہ بہت زیادہ ذہنی تکلیف، بے چینی اور کشمکش کا شکار ہوتے ہیں اور اکثر ایسے بچوں کا بچپن ناخوشگوار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ طوائفوں کے بچوں کا بچپن صحت مند اور خوشگوار نہیں ہوتا۔ ایسے تعلق سے پیدا ہونے والے بچے کو جب اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے اور اس وقت ماں سے اس کے باپ کا نام پوچھا جاتا ہے تو اُسے دو یا اس سے زیادہ ناموں کا حوالہ دینا پڑتا ہے۔ میں مانتی ہوں کہ موجودہ سائنسی ترقی کی بدولت جین ٹیسٹ کے ذریعے سے ماں اور باپ کی شناخت ہو سکتی ہے، اس لیے یہ نکتہ جو ماضی میں مؤثر تھا ممکن ہے کہ اب نہ ہو لیکن بچوں کے ناخوشگوار بچپن اور ان کی ذہنی تکلیف کا مسئلہ بدستور برقرار رہتا ہے اور یہ وراثت، یعنی باپ کی جائیداد وغیرہ کی تقسیم کے مسئلے میں بھی پیچیدگی کا باعث بنتا ہے۔

٭ مرد فطری طور پر عورتوں کی نسبت متعدد شادیوں کا زیادہ خواہشمند ہوتا ہے۔

٭ جسمانی یا حیاتیاتی طور پر ایک مرد کے لیے کئی بیویاں رکھنے کے باوجود اپنے فرائض انجام دینا آسان ہوتا ہے جبکہ ایک عورت کے لیے جو ایک سے زیادہ شوہر رکھتی ہو بحیثیت بیوی اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہر گز ممکن نہیں۔ ایک عورت ہر ماہواری کے دوران میں بہت سی نفسیاتی اور مزاج کی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔

٭ ایک عورت جس کے ایک سے زیادہ شوہر ہوں، اسے بیک وقت ایک سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات رکھنے پڑیں گے تو اس کو بہت سی جنسی بیماریاں لگ سکتی ہیں جو وہ اپنے کسی شوہر کو منتقل کر سکتی ہے ،چاہے اس کے تمام شوہروں کے دوسری خواتین سے غیر ازدواجی تعلقات نہ بھی ہوں لیکن یہ صورت حال مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں پیش نہیں آتی۔

٭ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ اور نگران بنایا ہے۔ وہ خاوند کی اولاد اور گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے، اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک سے زیادہ گھروں کی دیکھ بھال کر سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مرد کے اندر ایک فطری غیرت ہے، جو ہر سلیم الفطرت شخص کے اندر پائی جاتی ہے، کہ بیوی کے معاملے میں وہ کسی کی شراکت برداشت نہیں کرتا۔ یہ غیرت نہ صرف انسانوں میں ہے بلکہ حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے کہ وہ بھی اس معاملے میں شراکت برداشت نہیں کرتے۔

جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عمرو بن میمون کے حوالے سے بندروں کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباری میں اسے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں یمن میں ایک ٹیلے پر اپنے خاندان کی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بندر اور بندریا وہاں آئے۔ بندر نے بندریا کا بازو اپنے سر کے نیچے رکھا اور سو گیا۔ اس دوران ایک اور بندر آیا اور اس نے بندریا کو بہکایا اور وہ اس کے ساتھ چلی گئی اور تھوڑا دور جا کر انھوں نے بدکاری کی، پھر بندریا واپس آئی اور اپنا ہاتھ بندر کے سر کے نیچے داخل کرنا چاہا تو وہ جاگ اُٹھا۔ اس نے اسے سونگھا اور چلانے لگا۔ کئی بندر اکٹھے ہو گئے، وہ مسلسل چلائے جا رہا تھا اور اس بندریا کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ بندر ادھر ادھر گئے اور اس بندر کو لے آئے جس نے بدکاری کی تھی۔ انھوں نے ان دونوں کے لیے ایک گڑھا کھودا اور انھیں رجم کر دیا۔


(فتح الباری: 202/7، حدیث: 3859)

اسی طرح خنزیر کے علاوہ تمام جانوروں میں یہ غیرت کی حس موجود ہے۔ جب حیوان برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کی مؤنث کو کوئی اور نر جفتی کرے تو انسان اپنی شریکِ حیات میں شراکت کیسے برداشت کر سکتا ہے؟
یہ تمام وہ ظاہری وجوہ ہیں جن کا آسانی سے علم ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے اوربھی بہت سی وجوہ ہوں جن کا علم دانائے راز، اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہی کو بہتر طور پر ہو کہ اس نے عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے سے کیوں منع کیا ہے۔

حدیث رسول(صلی اللہ علیہ وسلم )کے بغیر انسان نابینا ہے‘ وہ دین سے بہت دور ہے اور جو شخص حدیث رسول ا کو حجت نہ مانے‘ اس کا دین اسلام سے کوئی سروکار نہیں۔
ہمیں تو حدیث رسول اکو حرز جان بنانا چاہئے ‘ ہمارا اوڑھنا بچھونا قرآن وحدیث کو ہونا چاہئے ‘ لیکن افسوس کہ ہم ان دونوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اگر حدیث رسول ا نہ ہوتی تو مسلمان اسماء الرجال جیسے علم وفن کے بانی نہ بن سکتے‘ اگر حدیث رسول ا نہ ہوتی تو مسلمان محدثین کے حافظوں کا تذکرہ کہیں نہ ملتا‘ اگر حدیث رسول نہ ہوتی تو آج کے اس نفسا نفسی کے دورِ بد میں مسلمان دین سے عاری اور بے عمل ہوتے‘ ہمیں محدثین کرام رحمھم اللہ کا ممنون ہونا چاہئے تھا‘ نہ کہ ہم ان پر عجمی سازش کا لبیل چسپاں کردیں ۔ 
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ!
”نضر اللہ امرا سمع منا شیئاً فبلغہ کما سمعہ“ ۔
ترجمہ:․․․”اللہ اس شخص کو شاداب رکھے‘ جس نے ہم سے کچھ سن کر لوگوں تک اس طرح پہنچادیا جس طرح سنا تھا“



اللہ تعالی نے دو فرشتوں کو بھیجا بابل شہر میں وہاں جادو بڑے عروج پر تھا ایک کا نام ہاروت تھا اور ایک کا نام ماروت تھا
انھوں نے لوگوں کو آکر اعلان کیا کہ اے لوگو !
سحر سے توبہ کرو چھوڑو جادو کو اگر پھر بھی کوئی سیکھتا ھے تو پھر آو ہم تمھیں سکھاہیں جنات سے نہ سیکھو ہمیشہ کے لیے ختم ھو جاو گے
اور وہ فرشتے کہتے کہ ہم تو آزمائش کے لیے ہیں تم جادو کر کے کفر نہ کرنا
لیکن لوگ أن سے سیکھتے تھے
اور انکے ذریعے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیتے تھے
سنو!
سحر کی بنیاد تفریق پر ھے
سحر کے ذریعے تالیف نہیں ھو سکتی
گناہ کے لیے لڑکے یا لڑکی کو تیار کرنا یہ جادو کے ذریعے فوراً ھو جاتا ھے
مطلب یہ ھے کہ سحر کا مادہ کفر ھے سحر خالص فتنہ ھے اور سحر کی بنیاد شر پر ھے
علما لکھتے ہیں ہر وہ عمل جس سے میاں بیوی میں اختلاف ھو حرام ناجائز ھے
اور ہر وہ عمل جس سے میاں بیوی میں باہم محبت بڑھے مستحب ھے



کسي کو اگر رات سوتے میں ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ سوتے میں کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے تھپڑ مارا ہے، یا پھر کوئی گلا گھونٹ رہا ہے، یا پھر کوئی جھنجھوڑ رہا ہے۔ وزن يا دوباو پر جانا تو يہ جادو ہے

عشق کا زوال
اونٹ کی چیچڑی عاشق کی آستین میں باندھی جاے عشق زائل ھو جاۓ گا
(مجرب عمل ھے)



سحرِ محبت کی علامات
1 حد سے زیادہ محبت

2 کثرتِ جماع کی شدید خواہش

3 اسے دیکھنے کے لیے شدید اشتیاق رکھنا

4 بیوی کے بغیر بے صبری کا مظاہرہ کرنا

5 بیوی کی اندھی فرمانبرداری کرنا



براے محبت
اپنے ناخن اتار کر اُن کو جلاے اور اُن پر یہ آیت پڑھے جس طرح ھو سکے وہ راکھ مطلوب کو کھلا دے مطلوب بے قرار ھو جاے گا
اگر نا جاہز کے لیے کرے گا تو نقصان کا خود زمہ دار ھو گا آیت یہ ھے
انًہُ مِن سلیمانَ واِنہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الاً تعلُو عَلَےَ وَ اتونیِ مُسلِمین (النمل۳)



براے محبت و تسخیر
عروجِ ماہ اس عمل کو شروع کرے ۲۱ عدد سیاہ مرچ لے کر ہر دانے پر ۲۱ مرتبہ پڑھ کر دم کرے اور آگ میں جلاتا جاے ۲۱ دن کا یہ عمل ھے
بہت زود اثر عمل ھے
اگر محبت جایز ھے تو عزیمت حاصل کریں



براے زوالِِ ِمحبت
جو شخص کسی ایسے انسان کی محبت میں مبتلا ھو جسکی ملاقات شرعاً ناجاہز ھو مگر وہ اپنے عشق سے مائل بہ فسق ھونے سے ڈرتا ھو اسکو چاہیے صبح سویرے اللہ تعالی کے وہ نام جن میں یاے تحتانیہ آئی ھو مثلاً عظیم رقیب عزیز کریم وغیرہ کسی پاک صاف برتن میں لکھ کرنہار منہ پی لیا کرے سات روز پیتا رہے
انشااللہ جوشِ اُلفت سرد پڑ جاے گا

جو اللہ رسول چاہیں، جو پنجتن پاک کی مرضی ہو وغیرہ کہنا: ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: جو اللہ تعالی اورآپ چاہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: (کیا تو نے مجھے اللہ کا شریک بنادیا، بلکہ کہہ جو اکیلا اللہ تعالی چاہے)۔ 
(صحیح ابن ماجہ 1733

براے حب
ایک برتن میں پانی لیوے اور اُس میں سے 
ایک دو گہونٹ پی لیوے اور اس پانی میں
یَا بدُوح سا ت مرتبہ پڑہے پہر پانی برتن
سے منہ میں لے کر اسی برتن میں کلی کر
دے جو شحضں پانی پیے گا تم سے محبت کرے گا



چور کی شناخت
جسے چور کی شناخت کرانا مقصود ھو وہ چہل کاف کو لکھ کر دانتوں کے نیچے دباے اور ایک سو ایک مرتبہ پڑھے اور متشبہ آدمیوں کو سامنے رکھے انشااللہ جو چور ھو گا وہ رونے لگے گا اقراری ھو گا



میرے دوستو بزرگو بھائیو
اللہ خالق ھے باقی سب مخلوق ھے اللہ مالک ھے باقی سب مملوک ھے اللہ رب ُالعزت رازق ھے باقی سب مرزوق ھے اللہ وہ اللہ ھے جس نے حضرت اسمعیل علیہ اسلام کی چھری کے نیچے حضرت یونس علیہ اسلام کی مچھلی کے پیٹ میں ابراھیم علیہ اسلام کی آگ میں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ۱۰۰ تلواروں کے بیچ حفاظت فرمائی اللہ کسی کا محتاج نیہں اللہ رب ُالعزت کسی کا شریک نہیں انسان کی ھر حال میں اللہ کی طرف نگاہ جانی چاہیے بزرگان ِدین فرماتے ھیں مصیبت تکلیف بیماری اور پریشانی میں انسان کی سب سے پہلی نگاہ جہاں جاتی ھے وھی اُسکا الا یعنی رب ھوتا ھے اب خود احتساب کرلیں کہ ھماری نگاہ کہاں جاتی ھے ڈاکٹر عامل بابا جی یا پیر صاحب پر یا خالص اللہ کی ذات پر لوگو اپنے ایمان کی تجدید کرو کوئی انسان کسی کو نہ نفع دے سکتا ھے نہ نقصان دے سکتا ھے اللہ کا ھر چیز پر قبضہ اور تصرًف ھے یہ عامل اور بابے لوگ تو خود اتنے محتاج ھیں کہ ان کے کھانے میں سے مکھی کچھ اُٹھا کر لے جاے تو یہ اپنا کھانا اُس سے واپس نہیں لے سکتے ان کا پیشاب بند ھو جاے تو نہیں کھول سکتے یہ کیا کسی کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے اپنے ایمان کو مظبوط کرو اور تقوی۱ اختیار کرو تم پر کوئی پریشانی نہیں آ سکتی یہ سب ھمارے اعمال کا بگاڑ ھے



مشرکین صرف بتوں کی عبادت نہیں کرتے تھے جیسا کہ عوام کو بعض لوگ مغالطے میں ڈالتے ہیں بلکہ وہ انبیاء و اولیاء اور دیگر ہستیوں کو بطور وسیلہ پکارا کرتے تھے:

*انبیاء کی عبادت (آل عمران: 80)
*اولیاء کی عبادت (نوح: 23)(الاسراء: 57)
*فرشتوں کی عبادت (سباء: 40-41)
*جنات کی عبادت (الانعام: 100)
*علماء اور درویشوں کی عبادت (التوبۃ: 31) صحیح ترمذی حدیث 3095
*ایک دوسرے کو رب بنانا (آل عمران: 64)
*دیگر انسانوں کی عبادت(الاعراف: 194)
*عورتوں اور شیطان کی عبادت (النساء: 117)
*بلکہ اپنے نفس کی اندھی پیروی اور دنیا پرستی کو بھی معبود بنانا قرار دیا گیا (الزخرف: 23)



ہدایت براے عامل!

ان ارکان کو آپ ارکان ِعمل سمجھیں چنانچہ اگرآپ نے ارکان میں سے کسی عمل میں غفلت برتی اور فراموش فرمایا یا اسکے انجام دہی میں بخل سے کام لیا تو آپ یقین کریں کہ بجاے فائدے کے نقصان ِ کثیرہ میں مبتلا ھوں گے جسکی تلافی غیر ممکن ھو گی جو تسخیرات و حاضرات کی فکر میں ھیں وہ سن لیں کہ یہ نہایت ہی سخت عمل ھے اور قدم قدم پر خطرات لیے ھوے ھے خطرات سے بچنے کے لیے میں مختصر طور پر صرف نام پیش کررھا ھوں تفصیل حاصل کرنے کے لیے سیکھنے والے احباب رابطہ کر سکتے ھیں

1 نڈر ھونا 2 مقام ِ تنہائی 3 اجازت 4 مکان غصبی 5 بخورات 6 رزقِ حلال 7 چٹورا8 کم خوراک 9 وقت اور مقام 10 کثیرالعبادات 11 لالچ 12 فحاشی اور بے حیائی 13 إنتقامی جذبات 14 ادائیگی ِ قرض 15 نفس پر قابو 16 نجاست سے دوری 17 صفائی و طہارت 18 جائز مقصد 19 اشیاے منشی 20 باقاعدگی 21 بغیر حصار 22 قطی توجہ 23 باہر آنے کی ترغیب 24 سیارگان 25 ہراساں نہ ھو 26 مکان کی چھت 27 نئی بات 28 یکسوئی 29 تذکرہ نہ کرنا.



انسان کے اندر کم و بیش گیارە ہزار صلاحیتیں کام کرتی ہیں اور ہر
صلاحیت ایک علم ہے اس کا مطلب یہ ہو کہ انسان کے اندر گیارە ہزار علوم کا ذخیرە ہے۔ ہر انسان ان علوم کی تکمیل کر کے گیارە ہزار ڈگریاں لے سکتا ہے۔

جیسے جیسے بندے کے اندر دنیا کا لالچ اور حوص بڑھ رہی ہے اسی مناسبت سے سکون ،راحت اور اطمنان قلب ختم ہو رہا ہے۔

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي، وَارْزُقْنِي,
Aey ALLAH ! Mujhe Maaf Farma De, Mujh Par Rehem Farma ,Mujhe Hidat De,
Mujhe Afiyat De , Or Mujhe Rizq De
( Ameen )



حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ کے یہاں کپڑے کی تجارت ہو تی تھی اوراسی سے گذر اوقات تھا ۔ جب خلیفہ بنائے گئے تو حسب معمول صبح کو چند چادریں ہاتھ پر ڈال کر بازار میں فروخت کیلئے تشریف لے چلے۔ راستہ میں حضر ت عمر رضی اﷲ عنہ ملے پوچھا کہاں چلے۔ فرمایا، بازار جا رہا ہوں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا کہ اگر تم تجارت میں مشغول ہو گئے تو خلافت کے کام کا کیا ہوگا۔ فرمایا پھر اہل وعیال کو کہاں سے کھلائوں۔ عرض کیا کہ ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہ جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امین ہو نے کا لقب دیا ہے ان کے پاس چلیں وہ آپ کیلئے بیت المال سے کچھ مقرر کر دیں گے۔ دونوں حضرات ان کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے ایک مہاجری کو جو اوسطاً ملتا تھا نہ کم نہ زیادہ، وہ مقرر فرمادیا۔ ایک مرتبہ بیوی نے درخواست کی کہ کوئی میٹھی چیز کھانے کو دل چاہتا ہے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کے میرے پاس تو دام نہیں کہ خریدوں اہلیہ نے عرض کیا کہ ہم نے روز کے کھانے میں سے تھوڑا تھوڑا بچالیا کریں کچھ دنوں میں اتنی مقدار ہوجاوے گی ۔آپ رضی اﷲ عنہ نے اجازت فرمادی۔ اہلیہ نے کئی روز میں کچھ تھوڑے سے پیسے جمع کیے۔آپ نے فرمایا کہ تجربے سے یہ معلوم ہوا کہ اتنی مقدار ہ میں بیت المال سے زیادہ ملتی ہے۔اسلئے جواہلیہ نے جمع کیا تھا وہ بھی بیت المال میں جمع فرما دیا اورآئندہ کیلئے اتنی مقدار جتنا انہوں نے روزانہ جمع کیا تھا اپنی تنخواہ سے کم کر دیا۔



يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَ‌ٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِي۔ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِير
وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے ہر ایک وقت مقرر تک چل رہا ہے یہی الله تمہارا رب ہے اسی کی بادشاہی ہے اور جنہیں تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ ایک گھٹلی کے چھلکے کے مالک نہیں۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار کو نہیں سنتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہیں جواب نہیں دیتے اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے اور تمہیں خبر رکھنے والے کی طرح کوئی نہیں بتائے گا۔ سورة فاطر، آیات ۱۳ ۔ ۱٤

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ۔ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ
اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو الله کےسوا اسےپکارتا ہے جو قیامت تک اس کے پکارنے کا جواب نہ دے سکے اور انہیں ان کے پکارنے کی خبر بھی نہ ہو۔ اور جب لوگ جمع کئےجائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت کے منکر ہوں گے۔ سورة الاحقاف، آیات ۵۔٦

عورت کی بندش کھولنا
عملیات کی لائن میں ایک عمل :عقد فرج: بھی ھوتا ھے اس عمل کے ذریعے عورت کو بیکار کر دیا جاتا ھے وہ اپنے شوہر سے صحبت نہیں کر پاتی بلکہ اس صحبت سے نفرت اور وحشت ھوتی ھے جس کی وجہ سے بعض اوقات نوبت طلاق تک چلی جاتی ھے اگر اس قسم کے اثرات کسی عورت پر ھوں تو فی سبیل اللہ رابطہ کریں
درویش بابا 03335456391



عورت کا سحری باجھ پن
بذریعہ جادو عورت کی فطری صلاحیت ماں بننے کی ختم کر دی جاے اور اس میں بیضا اثنی۱ بننا بند ھو جاے یا پھر حمل ٹھہرنے کے تین ماہ اندر اندر عورت کو خون حیض جاری ھو جاتا ھے اور اس سے حمل ضائع ھو جاتا ھے اور عورت بچہ جننے سے قاصر ھو جاتی ھے بار بار کا فعل اسقاطِ عورت کے اندر بڑی بڑی خرابیاں پیدا کر دیتا ھے



مصیبت اور بلا سے نجات کیلیے

لایلاف قریش پوری ستر مرتبہ اور یا سلامُ سو مرتبہ پڑھیں



جادو سے مکمل نجات
سات نمازیوں کے وضو کا پانی ایک بوتل میں جمع کرے اور اس پر دوسو مرتبہ باوضو سورہ یاسین کی آیت
سلام قولاَمّن ربِ رِحیم
پڑھ کر دم کریں سات چھوہارے لیں ہر چھوہارے پر یہی آیت ۲۱ مرتبہ پڑھ کر دم کریں مریض کو عصر اور مغرب کے درمیان ایک چھوہارہ کھلا کر بوتل کا پانی پلاہیں صرف سات دن کا عمل ھے اور اس آیت کا نقش بنا کر گلے میں بھی ڈالنا ھے انشااللہ مکمل علاج ھو جاے گا نقش لینے کے لیے درویش بابا سے رابطہ کر سکتے ھیں



شادی میں رکاوٹیں ڈالنے والے جادو کی علامات
1 دائمی سر درد
2 سینے میں شدید گٹھن کا احساس خاص طور پر عصر کے بعد سے لیکر آدھی رات تک
3 منگیتر کو بد صورت نظر میں دیکھنا
4 بہت زیادہ پریشان خیالی
5 نیند کے دوران بہت زیادہ گھبراہٹ
6 کبھی کبھی معدے میں شدید درد
7 پیٹھ کی نچلی ہڈیوں میں درد

آنکھ کی روشنی بڑھانے کیلیے
ایک تولہ ناریل چھلکا اُتار کرہمراہ مصری کے روزانہ کھائیں

سر درد کے لیے
جلسا علسا عملسا
لکھ کر سر پر باندھے مجرب ھے

براے آسیب زدہ
چہل کاف سرسوں کے تیل پر چالِس مرتبہ پڑھ کر مالش کروائیں آسیب دفع ھو جاے گا

درویش دو لفظوں سے مل کر بنا ہے ’’ دُ ر ‘‘ جس کا معنی ہے موتی اور ’’ ویش‘‘ جس کا معنی ہے بکھیرنا ۔ ایسی بات لکھنے والا ، بتانے والا جس سے معرفت کے سُچے موتی بکھر جائیں اور جہاں بکھریں ، وہاں صرف وہ معرفت ہی نہیں ، معرفت کا گلستان آباد ہو جائے ۔ اسے درویش کہتے ہیں ۔

بقول سلطان باہو ،

فقیر کا کلام واقعی مافوق الفطرت ہوتا ہے ۔اور فقیر کو فقیر ہی سمجھتا اور جانتا ہے

سحرتفریق(جدائی ڈالنا)
یعنی ایسا جادو جو خاوند بیوی کے درمیان یا دوستوں شریکوں میں نفرت پیدا کر دے فرمانِ الہی ھے
فیتعلمونَ مِنھُماِ ما یُفرِقونَ بَہ بینَ المرءِ وَزَوُجہ
پس وہ ان دونوں سے خاوند بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے والا علم سیکھتے تھے (البقرہ۱۰۲)

اکثر سوچتا ہوں، ہر فرد کامیابی کے حصول میں سرگراں ہے، ہر ایک نے کامیابی کا مختلف معیار مقرر کیا ہوا، کوئی حصول زر کو کامیابی سمجھتا ہے، کسی کی نظر میں کامیابی عزت سے ملتی ہے، ایک طبقہ شہرت کو کامیابی گردانتا ہے ۔۔یکن! جب مسجد سے موذن دن میں 5 مرتبہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اقرارِ توحید کے بعد لوگوں کو کامیابی کی جانب بھلانے کے لئے "حی علی الفلاح' کی صدا لگاتا ہے ۔۔ اور لوگوں کو کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے۔۔ آپ سب سوچیں کہ اس لمحے ہم ہر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے۔؟؟؟ کیا یہ الفاظ ہمارے ذہن و قلب پر کوئی اثر چھوڑتے ہیں۔۔۔ نہیں نہیں نہیں۔۔۔

ایسے عاملوں سے بچیں
روحانیت ایک ایسا علم ھے جسے ایک مومن اپنی آخرت سنوارنے کیلیے حاصل کرتا ھے
اللہ کی مخلوق کو فائدہ دینے اور خدمت فی سبیل اللہ کرکے اپنی عاقبت کی فلاح حاصل کرنے کی کوشش کرتا ھے
لیکن اب ہماری دنیا طلبی کا یہ حال ھے لوگ جو تعویذ گنڈے کرتے ھیں وہ اس علم کی ا ب ج بھی نہیں جانتے بازار سے نقش ِ سلمانی یا کسی قسم کی تعویذ گنڈوں کی کتاب لے کر کام شروع کر دیتے ھیں اور لوگوں کو لُوٹتے ھیں اور اپنی آخرت برباد کرتے ھیں اور اس چیز کو بالکل فراموش کر چکے ھیں کہ اس فریب کاری کی سنگین سزا دی جاے گی
یہ لوگ ہدیہ نزرانہ کے نام پر لوگوں سے رقم وصول کرنے کے لیے یہ کام کرتے ھیں اور وقت آنے پر لوگوں کے راز افشا کرتے ھیں دنیاداری ان کا مقصد ھوتا ھے یہ لوگ روحانیت کو بدنام کرتے ھیں

جادو سے حفاظت اور اسکے علاج کیلیے چند اھم اصول
پاکی اور طہارت
شہوت پر قابو
بسم اللہ الرحمن کا التزام
گندے جانور نہ پالیں
مقدس اوراق کا احترام
بے کاری سے اجتناب
وہم سے پرہیز
پیشہ ور عاملوں سے حفاظت
تقدیر پر کامل یقین
حرام غذا سے اجتناب
(جادو کے علاج کے لیے ان امور کا خوب اہتمام کیا جاے)

اللہ تعالیٰ کی محبت میں زندگی بسر کرنا اللہ تعالٰی کا خاص فضل وکرم ہے
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَهٗٓ ۙ اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ۡ يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ 54؀
ترجمہ: اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالٰی بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی وہ نرم دل ہونگے مسلمانوں پر سخت اور تیز ہونگے کفار پر، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے یہ ہے اللہ تعالٰی کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالٰی بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے۔(سورۃ المائدہ،آیت 54)
==========
عن عبادة بن الصامت أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال من أحب لقاء الله أحب الله لقاءه ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو محبوب رکھتا ہے ،جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات پسند نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات پسند نہیں کرتا۔(صحیح مسلم)

حدیث رسول(صلی اللہ علیہ وسلم )کے بغیر انسان نابینا ہے‘ وہ دین سے بہت دور ہے اور جو شخص حدیث رسول ا کو حجت نہ مانے‘ اس کا دین اسلام سے کوئی سروکار نہیں۔
ہمیں تو حدیث رسول اکو حرز جان بنانا چاہئے ‘ ہمارا اوڑھنا بچھونا قرآن وحدیث کو ہونا چاہئے ‘ لیکن افسوس کہ ہم ان دونوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اگر حدیث رسول ا نہ ہوتی تو مسلمان اسماء الرجال جیسے علم وفن کے بانی نہ بن سکتے‘ اگر حدیث رسول ا نہ ہوتی تو مسلمان محدثین کے حافظوں کا تذکرہ کہیں نہ ملتا‘ اگر حدیث رسول نہ ہوتی تو آج کے اس نفسا نفسی کے دورِ بد میں مسلمان دین سے عاری اور بے عمل ہوتے‘ ہمیں محدثین کرام رحمھم اللہ کا ممنون ہونا چاہئے تھا‘ نہ کہ ہم ان پر عجمی سازش کا لبیل چسپاں کردیں ۔ 
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ!
”نضر اللہ امرا سمع منا شیئاً فبلغہ کما سمعہ“ ۔
ترجمہ:․․․”اللہ اس شخص کو شاداب رکھے‘ جس نے ہم سے کچھ سن کر لوگوں تک اس طرح پہنچادیا جس طرح سنا تھا“

عورت کا بانجھ پن
عورت کا بانجھ پن دو طرح کا ھوتا ھے ایک وہ قدرتی طور پر اولاد جنم دینے کے قابل نہ ھو
اور دوسرا یہ کہ وہ قدرتی طور پر ٹھیک ھو لیکن رحم میں جنات کےعمل کی وجہ سے وہ بانھ ھو جاے اور بچہ جننے کے قابل نہ ھو اسکے عمل کی ایک شکل تو یہ ھے کہ وہ اسکی پیداواری کی صلاحیت بالکل ختم کر دے اور دوسری شکل یہ ھے کہ ابتدائی طور پر تو اسکے رحم میں حمل ٹھہر جاے لیکن چند ماہ بعد وہ رحم کی رگوں میں ایڑ لگا دیتا ھے جس سے عورت کو خون آنا شروع ھو جاتا ھے اسکا حمل ضائع ھو جاتا ھے اور حدیث میں آتا ھے
ان الشطان یجری مِن ابن آدم مجری الدم
شیطان انسان کی رگوں میں خون کیطرح گردش کرتا ھے
(مرض کی تشخیص اور علاج کیلیے ربطہ کریں 03335456391)

سحرِ بندشِ حیض
Baz oqaat haasid orat kisi hasad yaa Dushmni ki bina par Safli elam k zariay Haiz ka amal karwa deti hai jis say orat ki mahwari aana yaa to bilkul band ho jati hai yaa phir zara barabar Dagh lagnay k bad Dubara nhi aati jis sy aisi orat ko kaheen qisam k amraaz lahaq ho jatay hain
alamaat
kamr or meday k munh par aksar dard rehta hy sar chakra rehta hy 
or kam kaj main dil nhi lagta aksar reham main dard ki thaisain uthti hain or orat chirrchiri or bad mizaj ho jati hai is k elawa fawad o khoon jesay amraaz lahaq ho jatay hain
ba wasaf elaaj k aaram nhi aata or wajah bhi kisi qisam ki samnay nhi aati
fisabeelALLAH elaj k liay rabta karen

فرعون کے گھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش یہ ثابت کرتی ہے کہ جہاں شر کی انتہا ہوگی ،

وہیں سے خیر کی ابتدا ہوگی

((قسم کاکفارہ
))
قسم توڑدینے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکین کو دو وقت پیٹ بھرکر کھانا کھلائے یا دس فقیروں کو کپڑا پہنادے، ہرفقیر کواتنا کپڑادے کہ جس سے بدن کا اکثر حصہ ڈھک جائے، اگر کھانا کھلانے یا کپڑا پہنانے پر قدرت نہ ہو تو لگاتار تین روزے رکھے گا، اگر کفارہ ادا نہیں کرے گا تو اس کا گناہ ہوگا۔

واللہ تعالی دارالافتاء، دارالعلوم 

((قسم کے متعلق مسئلہ ))

میں یہ معلوم کرنا چاہتاہوں کہ اگر کوئی شخص اپنے ہاتھ میں قرآن لیتا ہے یا اپنا ہاتھ قرآن کے اوپر رکھتا ہےاو رکہتا ہے کہ وہ ایک خاص چیز نہیں کرے گا
(مثلاًفلاں جگہ نہیں جائے گا)، لیکن اللہ کی قسم نہیں کھاتا ہے۔ تو کیا اب وہ شخص وہ چیز کرسکتاہے
(یعنی اس جگہ جاسکتا ہے)
یا نہیں جاسکتاہے؟
کیا قرآن پر ہاتھ رکھ کرکے کچھ کہنا اللہ کی قسم کھانے جیسا ہے، یاہم اب بھی وہ چیز یا کام کرسکتے ہیں؟

***فتوی***
صورت مذکورہ میں قسم منعقد نہ ہوگی، جب تک قسم کے الفاظ مثلاً اللہ کی قسم، قرآن کی قسم وغیرہ زبان سے نہ کہے، صرف قرآن ہاتھ میںلے کر یا قرآن پر ہاتھ رکھ کر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کہنے سے قسم نہیں ہوتی، اور اس کے خلاف کرنے پر کفارہ نہیں۔

واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم

عنہ کی طر سے تین صورتیں پیش ہوتی ہیں یعنی یہ کے یا مجھے مکہ واپس جانے دو یا مجھے کسی اسلامی سرحدوں کی طرف جانے دو کہ میں کفار کے خلاف جہاد وقتال میں اپنی زندگی گزاروں یا میرا رستہ چھوڑ دو میں دمشق چلا جاوں، میں یزید سے اپنامعاملہ خود طے کرلوں گا لیکن اب گھیرا تنگ ہوگیا اور صورت حال یکسر بدل گئی ہے یہ بھی خوب جان لیجئے کہ اس کی اصل وجہ کیا تھی؟؟؟ِ۔۔۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے میدان کربلا میں ابن زیاد کے بھیجئے ہوئے لشکر کے سامنے جو خطبات دیئے اس میں انہوں نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ میرے پاس کوفیوں کے خطوط موجود ہیں جنہوں نے مجھے یہاں آنے کی دعوت دی تھی انہوں نے اس کوفی فوج کے بہت سے سرداروں کے نام لے لے کر فرمایا کے افلاں ابن فلاں یہ تمہارے خط ہیں کہ نہیں؟؟؟۔۔۔ 
جن میں تم نے مجھ سے بیعت کرنے کے لئے کوفہ آنے کی دعوت دی تھی اس پر وہ لوگ براءت کرنے لگے کہ نہیں ہم نے یہ خطوط نہیں بھیجے اب انکی جان پر بنی ہوئی تھی کیونکہ مصالحت کی صورت میں حکومت وقت سے ان کی غداری کا جرم ثابت ہوجاتا ہے جنگ جمل اور جنگ صفین کے واقعات یاد کیجئے جہاں بھی مصالحت کی بات ہوگی وہیں سبائی فتنہ آڑے آئے گا جو اس سارے انتشار وافتراق اور خانہ جنگیوں کا بانی رہا ہےمصالحت کی صورت میں تواُن کا کچا چٹھا کھل جاتا اور معلوم ہوجاتا کے دوستی کے پردوں میں رہ کر کون دشمنی کرتا رہا ہے اور وہ کون ہیں جو سادہ لوح عوام کو دھوکا دے کر اور خواص کوبہلا پھسلا کر مسلمان کو مسلمان کے خلاف محاذ آرا کرتے ہیں۔۔۔ 
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس کوفیوں کے بوریوں بھرے خطوط تھے مفاہمت کی صورت میں جب یہ سامنے آئے تو اُں کا حشر کیا ہوتا اس کو اچھی طرح آج بھی سمجھا جاسکتا ہے نتیجہ یہ ہوا کے ان سرداروں اور ان کے حواریوں نے مصالحت ومفاہمت کا سلسلہ جاری رہنے نہیں دیا اور عمروبن سعد کو مجبور کردیا کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے شرط پیش کرے کہ یا تو غیر مشروط طور پر گرفتاری دے دیں ورنہ جنگ کیجئے۔۔۔ یہ سازشی لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مزاج سے اتنے ضرور واقف تھے کہ ان کی غیرت وحمیت غیر مشروط طور پر حوالگی کے لئے تیار نہیں ہوگی اور فی الواقع ہوا بھی یہی۔۔۔ یہاں یہ جان لیجئے کے معاملہ تھا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اُن کی غیرت اُن کی حمیت اُن کی شجاعت اس توہیں وتذلیل کو ہرگز گوارنہ کرسکتی تھی لہذا انہوں نے غیرمشروط گرفتاری دینے سے انکار کردیا اور مسلح تصادم ہوکر رہا جس کے نتیجے میں سانحہ کربلا واقع ہوا داد شجاعت دیتے ہوئے آپ کے ساتھی شہید ہوئے آپ کے اعزہ واقارب نے اپنی جانیں نچھاور کیں اور آپ نےبھی تلوار چلاتے ہوئے اور دشمنوں کو قتل کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔۔۔ 
ان اللہ وانا الیہہ راجعون۔۔۔ 
یہ ہے اصل حقیقت اس سانحہ فاجعہ کی اصل سازشی ذہن کو پہچانئے جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلافات کا افسانہ جس نے بھی تراشا ہے بڑی عیارانہ مہارت سے تراشا اور گھڑا اس افسانے سے حقائق گم کردیئے گئے ہیں اب ہوتا یہ ہے کہ بجائے اس کے اصل مجرم کو پوائنٹ آؤٹ کیا جائے کوئی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر تنقید کا ہدف بناتا ہے تو کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس طرح یہ دونوں فریق اس سازشی سبائیوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اس لئے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شخصیت مجروح ہوتی ہے تو بھی ان کا کام بنتا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی مجروح ہوتی ہے تو بھی ان کے پوبارہ ہوتے ہیں یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کون ہیں؟؟؟۔۔۔ 
یہ ہیں ذوالنورین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوہرے داماد اور یکے بعد عشرہ مبشرہ اور یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کون ہیں؟؟؟۔۔۔ 
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب اور یکے از عشرہ مبشرہ۔۔۔ 
ان دونوں میں سےکسی کی بھی شخصیت مجروح ہوتی ہے تو اس کی زدپڑتی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر جو ان دونوں کے مزکی ومربی تھے ان شخصیتوں میں اگر نقص اور عیب مانا جائے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت پر حرف آئے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت مبارکہ مجروح ہوگی افسوس کہ آج بھی اُن سبائیوں کا کام دونوں طرف سے بن رہا ہے۔۔۔ 
خوب جان لیجئے کہ ایسے تمام لوگ چاہے وہ اس کا شعور رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں سبائی ایجنٹ ہیں ہماراموقف یہ ہے کہ
‘‘ الصحابہ کلھم عدول‘‘ کوئی بدنیتی اور نفسانیت نہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں تھی نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں نہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں نہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ میں نہ حضرت عمرو بن العاص میں تھی نہ حضرت ابوموسی العشری میں نہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ میں تھی نہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ میں یا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رضوان اللہ علیھم اجمعین میں ہاں ایک فتنہ تھا جس نے ہر مرحلے پر جب بھی مصالحت ومفاہمت کی صورت پیدا ہوتی نظر آتی اس کو تار پیڈو کیا اور اس کی بجائے ایسی نازک صورت حال پیدا کردی کے کشت خون ہو مسلمان ایک دوسرے کی گردنوں پر تلواریں چلائیں فتنہ اور بھڑکے حق کے سیلاب کے آگے بند باندھا جاسکے ‘‘ تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا ‘‘ والی صورت ختم ہوسکے چنانچہ کون انصاف پسند ایسا ہوگا جو نہ جانتا ہو کہ حضرت ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت سے لے کر کربلا کے سانحے فاجعہ تک مسلمانوں کی آپس میں جومسلح آویزیش رہی اس میں درپردہ ان سبائیوں ہی کا ہاتھ تھا مستند تواریخ اسحقیقت پر شاہد ہیں البتہ ان کو نگاہ حقیقت بین اور انصآف پسندی کے ساتھ پڑھان ہوگا جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فتح ہوئی آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟؟؟۔۔۔
بالکل وہی جو ایک بیٹے کو ماں کے ساتھ کرنا چاہئے چالیس خواتیں اور حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لشکر کے معتبر ترین لوگوں کے ہمراہ پورےادب واحترام کے ساتھ اُن کو مدینہ منورہ پہنچادیا۔۔۔ 
معلوم ہوا کہ نہ ذاتی دشمنی تھی نہ بغض وعناد۔۔۔ اور ادھر کیا ہوا؟؟؟۔۔۔
معاذ اللہ ثم معاذ اللہ 
یزید نے خاندان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواتین کو اپنی لونڈیوں بیایا؟؟؟۔۔۔ 
آخر وہ دمشق بھیجی گئیں لیکن وہاں کیا ہوا؟؟؟۔۔۔ 
ان کا پورا احترام کیا گیا ان کی دلجوئی کی گئی ان کی خاطر ومدارات کی گئی یزید نے انتہائی تاسف کا اظہار کیا اور کہا کہ ابن زیاداس حد تک نہ بھی جاتا تو بھی اس سے راضی رہ سکتا تھا کاش وہ حسین رضی اللہ عنہ کو میرے پاس آنے دیتا ہم خود ہی باہم کوئی فیصلہ کر لیتے۔۔۔ لیکن کربلا میں جو کچھ ہوا وہ اس فتنے کی وجہ سے ہوا جو کوفیوں نے بھڑکایا تھا۔۔۔
وہ اپنی دوعملی اور مافقت کی پردہ پوشی کے لئے نہیں چاہتے تھے کے مصالحت ومفاہمت کی کوئی صورت پیدا ہو ان کو جب محسوس ہوا کہ ہماری سازش کا بھانڈا پھوٹ جائے گا تو انہوں نے وہ صورتحال پیدا کردی جو ایک نہایت دردناک اور الم انگیز انجام پر منتج ہوئی۔۔۔ 
یہ سانحہ فاجعہ انتہائی افسوس ناک تھا اس سے کون اختلاف کرسکتا ہے اس نے تاریخ پر جو گہرے اثر ڈالے ہیں وہ اظہر من الشمن ہیں اس کڑوے اور کسیلے پھل کا مزہ اُمت چودہ سوسال سے چکھتی چلی آرہی ہے ان دو واقعات یعنی شہادت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور شہادت حسین رضی اللہ عنہما کی وجہ سے ہمارے درمیان افتراق، انتشار، اختلاف اور باہمی دست وگریباں ہونے کی جوفضا چلی آہی ہے اس پر اُن لوگوں کے گھروں میں گھی کے چراغ جلتے ہیں جنہوں نے اس کی بنیاد ڈالی جہاں جہاںاس کے اثرات پہنچے درحقیقت کامیابی ہوئی ہےان کو جو دراصل ان فتنوں کی آگ کو بھڑکانے والے تھے اب کوئی یزدی کے نام کو گالی بنائے پھرت ہے کسی نے ثمر کے نام کو گالی بنایا ہوا ہے کوئی عمربن سعد کے نام کو گالی بنائے ہوئے یہاں تک بات پہچنی ہے لوگ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں بھی توہین آمیز اور گستاخانہ انداز اختیار کرنے سے نہیں چوکتے اللہ تعالی ایسے سب لوگوں کو ہدایت دے اور ہمیں ان میں شامل وہنے سے بچائے اور اپنی پناہ میں رکھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک کو ہمیشہ نظر رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔۔۔ اللہ فی اصحابی لاتتخذوھم غرضا من بعدی فمن احبھم فبحبی احبھم ومن ابغضھم فبیغضی ابغضھم وما علینا الالبلاغ۔۔۔

--------------- ­ ­ ­--------------

مزید پوسٹس دیکھنے کے لیے خود بھی یہ پیج جوائن کریں اور دوست احباب کو بھی دعوت دیں کہ یہ پیج جوائن کریں.

اس تعاون پر
آپ کا
بہت مشکور رہونگا.
فقط آپ کا مخلص
dervish baba

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل سمجھتا ہے تو یہ بھی ایسی بنیادی واساسی بات نہیں بے کے جس کی بناء پر ‘‘ من دیگرم تودیگری‘‘ کا معاملہ ہوسکے البتہ یہ ضرور ہے کے پوری اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل ترین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت ہی نہیں سمجھتی بلکہ پوری نوع انسان میں انبیاء کرام کے بعد افضل البشر سمجھتی ہے لیکن اس بھی عقیدے کا بنیادی اختلاف قرار نہیں دیا جاسکتا۔۔۔ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ۔۔۔ اگر میری طبعیت کو اس کی آزادی پر چھوڑ دیا جائے تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی قائل ہوتی نظر آتی ہے لیکن مجھے حکم ہوا ہے کہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا اقرار کروں۔۔۔ میری ناقص رائے میں خلفائے راشدین کی فضیلت میں تقدیم وتاخیر اگرچہ فی نفسہ ایک اہم مسئلہ ہے تاہم اسے عقیدے کا اختلاف قرار نہیں دیا جاسکتا اصل اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک معصومیت ختم ہوچکی ہے جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر۔۔۔ 
ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النیین والمرسلین کے ساتھ ساتھ خاتم المعصومین بھی ہیں اور ہم اسے ایمان بالنبوت اور ایمان بالرسالت کا ایک لازمی جزء سمجھتے ہیں اور یہ بات یقینا بنیادی عقیدے سے متعلق ہے اس لئے کہ یہ عقیدہ ختم نبوت کا لازمی نتیجہ ہے چونکہ عصمت ومعصومیت خاصہ نبوت ہے نبوت ختم ہوئی تو عصمت اور معصومیت بھی ختم ہوئی اب نبوت کے بعد اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے وحی نبوت کادروازہ بند ہے اور تاقیامت بند رہے گا تاریخ انسانی کا بقیہ سارا دور اجتہاد کا ہے اجتہاد میں مجتہد اپنی امکانی حد تک کوشش کرتا ہے کہ اس کی رائے قرآن وسنت ہی سے ماخوز ومستنبط ہو لیکن معصوم عن الخطاء نہیں ہے اس اجتہاد میں خطاء بھی ہوسکتی ہے لیکن اگر نیک نیتی کے ساتھ خطاء ہے تو ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ مجتہد مخطی کو بھی ایک اجروثواب ملے گا اگرچہ اکہرا اور مجتہد اگر مصیب ہو یعنی صحیح رائے تک پہنچ گیا ہو تو اسے دوہرا اجرا ملے گا جبکہ شیعہ مکتب فکر کا عقیدہ امامت معصومہ کا ہے ہمارے نزدیک جیسا کے میں نے ابھی عرض کیا، معصومیت خاصہ نبوت ہے وہ اپنے آئمہ کو بھی معصوم مانتے ہیں اوریہ عقیدہ رکھتے ہیں کہان سے خطاء کا صدمہ ممکن نہیں ہمارے اعتبار سے تو اس نوع کی امامت ایک قسم کی نبوت بن جاتی ہے اور ہر قسم کی نبوت کو ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم سمجھتے ہیں۔۔۔ لہذا نبوت کے بعد جو بھی زمانہ آیا اس میں کسی کا جو بھی اقدام ہے اس میں ہم احتمال خطاء کو بعید از امکان نہیں سمجھتے خواہ وہ اقدام حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہو خواہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہو خواہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہو یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا۔۔۔ 
لہذا اگر کوئی شخص ان میں سے کسی کے کسی فیصلے یا اقدام کے بارے میں یہ رائے دینا چاہئے کے فلاں معاملے میں ان سے خطاء ہوئی تو اسے حق ہے وہ کہہ سکتا ہے البتہ دلیل سے بات کرے اور اُسے اجتہادی خطاء سمجھے تو یہ بات ہمارے عقیدے سے نہیں ٹکرائے گی۔۔۔ 
یہ دوسری بات ہے کہ پوری چودہ سوسال کی تاریخ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور سے لیکر آج تک کسی شخص نے صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی کسی خطاء کو پکڑانہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ امکان خطاء موجود تھا اور وہ معصوم عن الخطاء نہیں تھے۔۔۔ لہذا کوئی شخص اگر یہ کہنا چاہے کہ ان سے خطاء ہوئی یہ نہ کرتے یا یوں کرتے تو بہتر تھا تو ہم اس کی زبان نہیں پکڑیں گے۔۔۔چونکہ ہم ان کی معصومیت کے قائل ہی نہیں ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تو خود اپنی بعض اجتہادی آراء میں خطاء کا احساس ہوا جن سے انہوں نے علی الاعلان رجوع کر لیا البتہ اپنی ایک خطاء کا وہ صرف اعتراف کرسکے اس کا ازالہ نہ ہوسکا وہ یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں خود انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر زور دے کر وظائف کے تعین کے معاملے میں ایک فرق رکھوایا یعنی یہ کے بدری صحابہ کو دوسروں کے مقابلے میں کافی زیادہ وظیفہ ملنا چاہئے اور اصحاب شجرہ کو بدری صحابہ رضی اللہ عنہما سے کم لیکن دوسروں سے زیادہ وظیفہ ملنا چاہئے۔۔۔ 
یہ فرق مراتب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رکھوایا اور اپنی حیات دنیوی کے آخری ایام میں آپ اس پر پچھتائے اس کی وجہ کیا تھی وہ بھی جان لیجئے یعنی یہ کہ اللہ تعالی کی نصرت اور مسلمانوں کے جوش جہاد اور شوق شہادت کی وجہ سے نہایت عظیم الشان فتوحات ہوتی چلی گئیں اور مال غنیمت بےحدوحساب دارالاسلام میں آنے لگا اب جو بڑے بڑے وظائف باقاعدگی سے ملے تو اس نے سرمایہ داری کی شکل اختیار کر لی اس لئےکے معاشرے میں بالفعل یہ صورت حال پیدا ہوگئی تھی کے صدقہ خیرات لینے والا کوئی مستحق ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا تھا بنابرین ارتکاز دولت کی شکل پیدا ہونی شروع ہوگئی اور وظائف میں فرق وتفاوت نے اصحاب دولت وثروت کے مابین بھی عظیم فرق وتفاوت پیدا کردیا اگر وہ دولت کسی ہموار ومساوی طریقے پر منتقل ہوتی تویہ صورتحال رونما نہ ہوتی یہ وہ چیزیں تھی جس کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کے۔۔۔ لو استقبلت ما استدبرت لاخذت فضول اموال الاغنیاءولقسمتہ بین الناس۔۔۔۔۔ او کما قال اب اگر کہیں وہ صورت حال دوبارہ پیدا ہوجائے جو اب پیچھے جاچکی ہے تو میں لوگوں کے اموال میں جو فاضل ہے وہ لے کر دوسرے لوگوں میں تقسیم کردوں۔۔۔ پس معلوم ہوا کے آپ رضی اللہ عنہ کو ایک احساس ہوا یہ بات میں نے صرف اس لئے عرض کی ہے کہ اہلسنت کا یہ موقف واضع ہوجائے کے خطاء کا احتمال و امکان صحابی کے بارے میں بھی ہوسکتا ہے لیکن ہم اس خطاء کو اجتہادی خطاء قرار دیں گے اور اسے نیک نیتی پر محمول کریں گے یہ بات ہر صحابی کے بارے میں کہی جائے گی یہی بات اور یہی رائے نہ صرف حضرت معاویہ، حضرت عمروبن العاص، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔۔۔ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی یہاں تک کے حضرات شیخین اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ذوالنورین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔۔۔ لہذا یہ بات پیش نظر رکھئے کہ اب گفتگو کا جو مرحلہ آرہا ہے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ایک اقدام سے متعلق ہے اس کے بارے میںبھی وہ رائیں ممکن ہیں ان کو یہ بات مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ نے سوجھائی (جو مسلمہ طور پر ایک نہایت ذہن وفہیم مدبر اور دور رس نگاہ رکھنے والے صحابی مانے جاتے ہیں)۔۔۔ کہ دیکھئے مسلمانوں میں آپس میں جو کشت وخون ہوا اور پانچ برس کا جو عرصہ آپس کی لڑائی جھگڑے میں گزرا کہیں ایسا نہ ہو کے آپ کے بعد پھر وہی حالات پیدا ہوجائیں لہذا اپنی جانشینی کا مسئلہ اپنی زندگی میں ہی طے کر کے جایئے اب کوئی شخص چاہے (اور ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے) تو وہ بڑی آسانی سے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ پر یہ فتوی لگادے کہانہوں نے کسی لالچ اور کسی انعام کی اُمید کی وجہسے یا چاپلوسی کے خیال سے یہ رائے دی معاذ اللہ۔۔۔ ہم یہ رائے نہیں دے سکتے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل ہیں جنہوں نے حدیبیہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر وہ بیعت کی تھی جس کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے اور اس بیعت پر سورہ فتح میں اللہ تعالی نے اپنی رضا کا اظہار فرمایا تھا۔۔۔ چنانچہ وہ اصحاب شجرہ میں سے ہیں پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پورے عہد حکومت میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے حامیوں میں رہے اور ہر مرحلے میں انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا لیکن وہ اُمت کے حالات کو دیکھ رہے تھے آپس کی خانہ جنگی کا انہیں تلخ اور دردناک تجربہ ہوا تھا۔۔۔ 
یہ ٦٠ ھجری کے لگ بھگ کا زمانہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پورے پچاس برس گزرنے چکے ہیں کبار صحابہ رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی عظیم اکثریت اللہ کو پیاری ہوچکی ہے اب تو صغار صحابہ میں بھی کچھ لوگ موجود ہیں اور یہ گویا صحابی کی دوسری نسل کے افراد ہیں جسے حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ شہید ہوچکے اب ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوچکے اب ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔۔۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اللہ کو پیارے ہوچکے اب ان کے بیٹے حضرت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ موجود ہیں اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں الغرض چند صغار صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمیعن کو چھوڑ کر تقریبا ننانوےفی صد لوگ تو بعد کے ہیں پھر وہ جوش و جذبہ ایمانی بھی پچاس سال کے بعد اس درجے کا نہ رہا تھا جو خلافت راشدہ کے ابتدائی پچیس سال تک نظر آتا ہے اس ضمن میں ‘‘ جواہر اندیشہ‘‘ اور شدت احساس کا عالم تو یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک موقع پر جب کچھ عیسائی آئے اور ان کو قرآن مجید کی آیات سنائی گئیں اور شدت تاثر سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔۔۔ ھکذا حتی قست القلوب یہی حال کبھی ہمارا ہوا کرتا تھا کہ قرآن مجید پڑھتے تھے اور سنتے تھے تو ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجایا کرتے تھے یہاں تک کے دل سخت ہوگئے۔۔۔ ذرا غور فرمائیے یہ بات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے متعلق فرمارہے ہیں کہ ہمارے دل سخت ہوگئے اسی طرح انتقال کے وقت حضرت عمررضی اللہ عنہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ‘‘ کہ میں اگر برابر برابر پر چھوٹ جاؤں تو بہت بڑی کامیابی سمجھوں گا‘‘ پھر یہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں جو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہیں ‘‘ میں قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں کہیں میرا نام ان منافقوں کی فہرست میں تو نہیں تھا جن کے نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں بتائے تھے؟؟؟۔۔۔ تو ان جلیل القدر صحابہ کی شدت احساس کی اگر یہ صورت تھی تو آپ سوچئے۔۔۔۔۔ لہذا ان حالات میں حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کی سمجھ میں مصالح اُمت کا یہی تقاضا آیا کے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنا کوئی جانشین نامزد فرمادیں چونکہ اس وقت فی الواقع بحیثیت مجموی امت کے حالات اس شورائی مزاج کے متحمل نہیں رہے ہیں جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا فرمایا تھا لہذا حالات کے پیش نظر ایک سیڑھی نیچے اُتر کر فیصلہ کرنا چاہئے چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے دلائل کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اصرار کیا کہ وہ اپنا جانشین نامزد کریں اور اس کی بیعت ولی عہدی لیں پھر ان ہی نے جانشینی کے لئے یزید کا نام تجویز کیا یہاں یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ جو شخس کسی بھی درجے میں حضرتمغیرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بدنیت قرار دے گا اس کا معاملہ اہلسنت سے جدا ہوجائے گا اہلسنت کا عقیدہ یہ ہے کہ ‘‘ الصحابہ کلھم عدول ‘‘ بدنیتی کی نسبت ہم ان کی طرف نہیںکرسکتے اختلاف کرسکتے ہیں ہم انہیں معصوم نہیں مانتے ان سےخطاء ہوسکتی ہے ان کے کسی فیصلے کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ یہ صحیح فیصلہ نہیں تھا کوئی یہ کہے تو اس سے اس کے ایمان عقیدے اور اہلسنت میں سے ہونے پر کوئی حرف نہیں آئے گا یہ رائے دی جاسکتی ہے لیکن جو شخص بدنیتی کو کسی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منسوب کرتا ہے تو جان لیجئے کہ وہ خواہ اور کچھ بھی ہو بہرحال اہلسنت والجماعت میں شمار نہیں ہوگا۔۔۔ اب تصویر کا دوسرا رُخ دیکھئے یعنی یہ کہ جن کی نیک نیتی ہر شبہ سے بالاتر ہے انہوں نے یہ محسوس کیا یہ عمل اسلام کے مزاج کے ساتھ مناسب ترکھنے والا نہیں ہے ان میں پانچ نام بہت مشہور ہیں تین تو اُمت کے مشہور ‘‘عبادلہ‘‘ مں سے ہیں یعنی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ایک حضرت حسین ابن علی رضی اللہ تعالٰی عنھما اور حضرت ابوبکر کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ انہوں نے یزید کی بیعت ولی عہدی سے انکار کیا اور ذہن میں رکھئے یہ تاریخی جملہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کا ہے کہ جب مدینہ کے گورنر نے ولی عہدی کی بیعت لینی چاہی تو انہوں نے بڑے غصے سے کہا کہ ‘‘ کیا اب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی سنت کے بجائے قیصر وکسری کی سنت رائج کرنا چاہتے ہو کہ باپ کے بعد بیٹا جانشین ہو‘‘۔۔۔ تیسری جانت یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ ان پانچ حضرات کو چھوڑ کر اُمت کی عظیم ترین اکثریت نے بیعت کر لی جس میں کثیر تعداد میںصحابہ بھی شامل تھے اب اس واقعے کے بعد اگر کوئی چاہے تو ان سب کو بےضمیر قرار دے دے کسی زبان کو تو نہیں پکڑا جاسکتا کہنے والے یہ بھی کہہ دیں گے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے ایمان دولت کے ذریعے خرید لئے تھے لیکن ذرا توقف کر کے غور کیجئے کہ ناوک نے تیرے صیدنہ چھوڑا زمانے میں کے مصداق سب سے پہلے اس زڈ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی آئے گی گویا انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہکے حق میں دولت کے عوض دستبرداری قبول کر کےاپنی خلافت فروخت کی تھی۔۔۔ 
معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔۔۔ 
لیکن ایسی بات کہنے والوں کو ٹھنڈے دلسے سوچنا چاہئے کہ اس طرح ہدف ملامت واہانت کون کون سی لائق صداحترام ہستیاں بنتی ہیں ہم ان کو نیک نیت سمجھتے ہیں جو بھی صحابہ کرام اس وقت موجود تھے ان میں سے جنہوں نے ولی عہدی کی بیعت کی اور جنہوںنے انکار کیا وہ سب کے سب نیک نیت تھے سب کے پیش نظر اُمت کی مصلحت تھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے جو ایثار فرمایا تھا وہ تو تاقیامت اُمت پر ایک احسان عظیم شمار ہوگا یہ بات بھی پیش نظر رکھئے ک جو دوسرا مکتب فکر ہے وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بھی امام معصوم مانا ہے لہذا ان کا طرز عمل خود ان کےاپنے عقیدے کے مطابق صدفی صددرست قرار پایا۔۔۔ اب آئیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کریں اہلسنت والجماعت اس معاملے میں یہ رائے رکھتے ہیںکہ پوری نیک نیتی سے آنجناب سمجھتے تھے کہ اسلام کے شورائی مزاج کو بدلاجارہا ہے حالات کے رُخ کو اگر تبدیل نہ کیا تو وہ خالص اسلام جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور وہ کامل نظام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا اس میں کجی کی بنیاد پڑجائے گی لہذا اسے ہر قیمت پر روکنا ضروری ہے یہ رائے ان کی تھی اور پوری نیک نیتی سے تھی پھر شہر کوفہ کے لوگ ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے برابر ان کو پیغامات بھیج رہے تھے اور کوفیوں کے خطوط سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بوریاں بھر گئی تھیں یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ کوفہ صرف ایک شہر ہی نہیں تھا بلکہ سیاسی اور فوجی حیثیت سے اس کی بھی بڑی اہمیت بھی لہذا آنجناب کی رائے تھی کے اہالیان کوفہ کے تعاون سے وہ حالات کا رُخ صحیح جانب موڑ سکتے ہیں۔۔۔ جیسا کے پہلے میںکہہ چکاہوں کے ایسے معاملات اجتہادی ہوتے ہیں اس رائے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے کے ولی عہدی کی جو رسم پڑگئی ہے وہ اسلام کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔۔۔لیکن وہ آگے جاکر اختلاف کرتےہیں ان کا اختلاف کامیابی کے امکانات کے بارے میں تھا وہ کوفہ والوں کو قطعی ناقابل اعتبار سمجھتے تھے ظاہر بات ہے کہ کسی اقدام سے پہلے خوب اچھی طرح جائزہ لینا ہوتا ہے کہ اقدام کے لئے جو وسائل وذرائع ضروری ہیں وہ موجود ہیں یانہیں۔۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان پر قتال مکہ میں فرض نہیں ہوا تھا بلکہ مدینہ میں ہوا جبکہ اتنی قوت بہم پہنچ گئی تھی کے قتال سے اچھے نتائج کی توقع کی جاسکے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی مخلصانہ رائے تھی کے کامیاب اقدام کے لئے جو اسباب درکار ہیں وہ فی الوقت موجود نہیں ہیں لہذا وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوکوفہ والوں کی دعوت قبول کرنے اور وہاں جانے سے باصراروالحاح منع کرتے رہے لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ کوفہ والوں کی دعوت قبول کرنی چاہئے اصل معاملہ یہ تھا کہ جو سچا انسان ہوتا ہے وہ اپنی سارگی اور شرافت میں دوسروں کو بھی سچا ہی سمجھتا ہے اور اپنی صداقت کی بنیاد پر دوسروں سے بھی حسن ظن رکھتا ہے کوفہ کوئی معمولی شہر نہیں تھا انتہائی اسٹریجٹک مقام پر واقع تھا یہ سب سے بڑی چھاؤنی تھی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں قائم کی گئی تھی اس لئے کہ یہ وہ مقام ہے جس سے اُس شاہراہ کا کنٹرول ہوتا ہے جو ایران اور شام کی طرف جاتی ہے لہذا حضرت حسین رضی اللہ عنہ یہ رائے رکھتے تھے کہ اگر کوفہ کی عظیم اکثریت ان کا ساتھ دینے کے لئے آمادہ ہے جیساکے ان کے خطوط سے ظاہر ہے ہوتا ہے تو اس کے ذریعے اسلامی نظام میں لائی جارہی تبدیلی کا ازالہ کیا جاسکتا ہے اور اس کا راستہ روکا جاسکتا ہے لیکن اس رائے سے اختلاف کر رہے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین یہ اختلاف بھی معاذ اللہ بدنیتی پر منبی نہیں تھا۔۔۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی اور یہ تینوں عبادلہ بھی نیک نیت تھے ان تینوں حضرات نے لاکھ سمجھایا کہ آپ کوفہ والوں پر ہرگز اعتماد نہ کیجئے یہ لوگ قطعی بھروسے کے لائق نہیں ہیں یہ لوگ جو کچھ آپ کے والد بزرگوار کے ساتھ کرتے رہے ہیں اس کو یاد کیجئے جو کچھ آپ کے برادر محترم کے ساتھ کر چکے ہیں اس کوپیش نظر رکھئے یہ عین ممکن ہے کہ ان کے دل آپ کےساتھ ہوں لیکن ان کی تلواریں آپ کی حمایت میں نہیں اُٹھیں گی بلکہ معمولی خوف یا دباؤ یا لالچسے آپ کے خلاف اُٹھ جائیں گے لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ایک فیصلہ ہے جس پر وہ کمال استقامت کے ساتھ عمل پیراہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس معاملہ میں فرمان خداوندی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کر رہے تھے یعنی فاذاعزمت فتوکل علی اللہ یعنی پہلے خوب غور کرلو سوچ لو امکانات کا جائزہ لے لو تدبر کو برؤئے کار لانا ضروری ہے سازوسامان کی فراہمی ضروری ہے یہ بھی دیکھو کہ جو صورت حال فی الواقع درپیش ہے اس کے تقاضے پورے کرنے کی اہلیت ہے یانہیں لیکن جب ان مراحل سے گزر جر ایک فیصلہ کر لو تو پھر اللہ پر بھروسہ رکھتے وہئے اقدام کرو۔۔۔ فاذا عزمت فتوکل اللہ یہ رہنمائی ہے قرآن وسنت میں۔۔۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس سمنٹ میں غلطی کی لیکن یہ ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے کسی بدنیتی سے یا حکومت واقتدار کی طلب میںیہ کام کیا معاذ اللہ ثم معاذ اللہ اہلسنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہرگزنہیٰں ہے۔۔۔ میں ذاتی طور پر اس بات سے کھلم کھلا اور سرعام اعلان براءت کرتا ہوں اگر کسی کو یہ شک و شبہ یا غلط فہمی ہو کہ معاذ اللہ میری یہ رائے ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اس اقدام میں کوئی نفسانیت یا کوئی ذاتی غرض تھی تو میں اس سے بالکلیہ بری ہوں الحمداللہ ثم الحمداللہ کسی کی یہ رائے اگر ہو توہو لیکن اچھی طرح جان لیجئے کہ اہلسنت والجماعت کے جو مجموعی اور مجمع علیہ عقائد ہیں ان میں یہ بات شامل ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام اور مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہ کے ضًمن میں کسی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بدنیتی اور نفسانیت کا حکم لگانے سے ایمان میں جانے کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہےبلاتخصیص ہم تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو عدول مانتے ہیںالبتہ معصوم کسی کو نہیں مانتے اور ہر ایک سے خطاء اجتہادی کے احتمال وامکان کو تسلیم کرتے ہیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نیک نیتی سےایک رائے تھی نیک نیتی ہی سے ایک اندازہ تھا اور جب اس پر انشراح ہوگیا تو دین ہی کے لئےعزیمت تھی۔۔۔ جب ولی عہدیکی بیعت کا مسئلہ مدینہ منورہ میں پیش ہوا تھا جو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ وہاں سے مکہ مکرمہ چلے گئے تھے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا چندحضرات کی رائے یہ تھی کہ مکہ مکرمہ کو ہی مرکز بنایاجائے اور اصل بنیاد یہ ہی ہے۔۔۔ اور اس ولی عہدی کےخلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے اپنی قوتوںکو مجتمع کیا جائے ابھی اس سلسلے میں کوئی مؤثر کام شروع نہیں ہوسکتا تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا اور بحیثیت دلی عہد حکومت امیر یزید کے ہاتھ میں آگئی جس کے بعد کوفہ والوں نے خطوط بھیج بھیج کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی وفاداری اور آپ کے ہاتھ پر بیعٹ کرکے جدوجہد اور اقدام کا یقین دلایا آنجناب نے تحقیق حالکے لئے اپنے چچا ذاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ بھیجا ان کی طرف سے بھی اطلاعات یہی موصول ہوئیں کے اہل کوفہ دل وجان ساتھ دینے کو تیار ہیںحضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے سفر کا ارادہکر لیا اور کوچ کی تیاریاں شروع کردیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ دونوں نےبہت سمجھایا کہ مکہ سے نہ نکلئے یہ دونوں حضرات یہ کہتے ہوئے روپڑے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر والوں کے سامنے ذبح کردیا گیا اسی طرح آپ کے اہل وعیال کے سامنے آپ کو بھی ذبح کردیا جائےجب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوچ کی تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اُن کی سواری کے ساتھ دوڑتے ہوئے دور تک گئے اور اصرار کرتےرہے ہیں کہ اللہ کے لئے باز آجائیں اور اگر جانا ہی ہے تو خواتین اور بچوں کوتو ساتھ لے کر نہ جائیںاور یہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کون ہیں؟؟؟ِ۔۔۔ رشتے میں ایک جانب سے حضرت حسین رضیاللہ عنہ کے چچا لگتے ہیں تو دوسری طرف نانا اس لئے کہ والد یعنی حضرت علی کے چچا زاد بھائی ہیں اور نانا یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی چچا زاد بھائی ہیں لیکن اس وقت محبت سے مغلوب ہوکر کہہ رہے ہیں اےابن اعم اللہ کے لئے باز آجاؤ کم از کم ان عورتوں بچوں کو مکہ مکرمہ ہی میں چھوڑ جاؤ لیکن نہیں دوسری جانب عزیمیت کا ایک کوہ گران ہے پیکر شجاعت ہے سراپا استقامت ہے نیکنیتی ہے جو فیصلہ کیا ہے اس پر ڈٹے ہوئے ہیں اس کے بعد راستے میں جب اطلاع ملی کے حضرت مسلم بن عقیل جو ایلچی اور تحقیق کنندہ کی حیثیت سے کوفہ گئے تھے وہاں شہید کردیئے گئے ہیں اور کوفہ والوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔۔۔ سب کے سب نے گورنر کوفہ کے سامنے حکومت وقت کے ساتھ وفاداری کا عہد استوار کر لیا ہے ۔۔۔ تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے سوچنا شروع کیا کہ سفر جاری رکھا جائے یامکہ واپسی ہو۔۔۔ لیکن ذہن میں رکھئے کہ ہر قوم کا ایک مزاج ہوتا ہے جو انسان کی شخصیت کا جزولاینفک ہوتا ہے عرب کا مزاج یہ تھا کے خون کا بدلہ لیا جائے خواہ اس میں خود اپنی جان سے بھی کیوں نہ ہاتھ دھو لینے پڑیں چنانچہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے عزیز رشتدار کھڑے ہوگئے کہ اب ہم ان کے خون کا بدلہ لئے بغیر واپس نہیں جائیں گے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شرافت اور مروت کا تقاضا تھا کہ وہ ان لوگوں کا ساتھ نہ چھوڑیں جو ان کے مشن میں ان کا ساتھ دینے کے لئے نکلے تھے یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے خون ناحق کا بدلہ لینے کے عزم کا اظہار کرنے والوں کا ساتھ یہ پیکرشرافت و مروت نہ دیتا لہذا سفر جاری رہا اسی دوران حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ عنہ جوچچا زاد بھائی ہیں ان کے بیٹے حضرت اعوان اور حضرت محمد ان کا پیغام لے کر آئے ہیں کہ ‘‘ اللہ کے لئے ادھرمت آو‘‘ لیکن فیصلہ اٹل ہے ان دونوں کو بھی ساتھ لیتے ہیں اور سفر جاری رہتا ہے حتی کے قافلہ دشت کربلا میں پہنچ گیا اُدھر کوفہ سے گورنر ابن زیاد کا لشکر آگیا یہ لشکر ایک ہزار افراد پر مشتمل تھا اور اس کو صرف ایک حکم تھا کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ دو صورتیں پیش کریں کہ آپ نہ کوفہ کیطرف جاسکتے ہیں نہ مکہ یا مدینہ کی طرف مراجعت کرسکتے ہیں ان دونوں سمتوں کے علاوہ جدھر آپ جانا چاہیں اس کی اجازتہے۔۔۔ یہاں ایک بات کو اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ یہ تیسرا راستہ کون سا ہوسکتا تھا۔۔۔ وہ راستہ تھا دمشق کا لیکن افسوس کے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اُسے اختیار نہ کیابلکہ آپ وہیں ڈٹے رہے اب عمروبن سعد کی قیادت میں مزید چار ہزار کا لشکر کوفہ پہنچ گیا اور یہ عمرو بن سد کون تھے؟؟؟۔۔۔افسوس کہ ان کے نام کو گالی بنادیا گیا ہے یہ تھےحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فاتح ایران اور یکے از عشرہ مبشرہ کےبیٹے جن کی حضرت حسین رضی اللہ کے ساتھ قرابت داری بھی ہے وہ بھی مصالحت کی انتہائی کوشش کرتے ہیں اور گفت شنید جاری رہتی ہے اب حضرت حسین رضی اللہ...
Next pag