Saturday 8 June 2013


حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل سمجھتا ہے تو یہ بھی ایسی بنیادی واساسی بات نہیں بے کے جس کی بناء پر ‘‘ من دیگرم تودیگری‘‘ کا معاملہ ہوسکے البتہ یہ ضرور ہے کے پوری اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل ترین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت ہی نہیں سمجھتی بلکہ پوری نوع انسان میں انبیاء کرام کے بعد افضل البشر سمجھتی ہے لیکن اس بھی عقیدے کا بنیادی اختلاف قرار نہیں دیا جاسکتا۔۔۔ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ۔۔۔ اگر میری طبعیت کو اس کی آزادی پر چھوڑ دیا جائے تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی قائل ہوتی نظر آتی ہے لیکن مجھے حکم ہوا ہے کہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا اقرار کروں۔۔۔ میری ناقص رائے میں خلفائے راشدین کی فضیلت میں تقدیم وتاخیر اگرچہ فی نفسہ ایک اہم مسئلہ ہے تاہم اسے عقیدے کا اختلاف قرار نہیں دیا جاسکتا اصل اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک معصومیت ختم ہوچکی ہے جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر۔۔۔ 
ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النیین والمرسلین کے ساتھ ساتھ خاتم المعصومین بھی ہیں اور ہم اسے ایمان بالنبوت اور ایمان بالرسالت کا ایک لازمی جزء سمجھتے ہیں اور یہ بات یقینا بنیادی عقیدے سے متعلق ہے اس لئے کہ یہ عقیدہ ختم نبوت کا لازمی نتیجہ ہے چونکہ عصمت ومعصومیت خاصہ نبوت ہے نبوت ختم ہوئی تو عصمت اور معصومیت بھی ختم ہوئی اب نبوت کے بعد اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے وحی نبوت کادروازہ بند ہے اور تاقیامت بند رہے گا تاریخ انسانی کا بقیہ سارا دور اجتہاد کا ہے اجتہاد میں مجتہد اپنی امکانی حد تک کوشش کرتا ہے کہ اس کی رائے قرآن وسنت ہی سے ماخوز ومستنبط ہو لیکن معصوم عن الخطاء نہیں ہے اس اجتہاد میں خطاء بھی ہوسکتی ہے لیکن اگر نیک نیتی کے ساتھ خطاء ہے تو ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ مجتہد مخطی کو بھی ایک اجروثواب ملے گا اگرچہ اکہرا اور مجتہد اگر مصیب ہو یعنی صحیح رائے تک پہنچ گیا ہو تو اسے دوہرا اجرا ملے گا جبکہ شیعہ مکتب فکر کا عقیدہ امامت معصومہ کا ہے ہمارے نزدیک جیسا کے میں نے ابھی عرض کیا، معصومیت خاصہ نبوت ہے وہ اپنے آئمہ کو بھی معصوم مانتے ہیں اوریہ عقیدہ رکھتے ہیں کہان سے خطاء کا صدمہ ممکن نہیں ہمارے اعتبار سے تو اس نوع کی امامت ایک قسم کی نبوت بن جاتی ہے اور ہر قسم کی نبوت کو ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم سمجھتے ہیں۔۔۔ لہذا نبوت کے بعد جو بھی زمانہ آیا اس میں کسی کا جو بھی اقدام ہے اس میں ہم احتمال خطاء کو بعید از امکان نہیں سمجھتے خواہ وہ اقدام حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہو خواہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہو خواہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہو یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا۔۔۔ 
لہذا اگر کوئی شخص ان میں سے کسی کے کسی فیصلے یا اقدام کے بارے میں یہ رائے دینا چاہئے کے فلاں معاملے میں ان سے خطاء ہوئی تو اسے حق ہے وہ کہہ سکتا ہے البتہ دلیل سے بات کرے اور اُسے اجتہادی خطاء سمجھے تو یہ بات ہمارے عقیدے سے نہیں ٹکرائے گی۔۔۔ 
یہ دوسری بات ہے کہ پوری چودہ سوسال کی تاریخ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور سے لیکر آج تک کسی شخص نے صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی کسی خطاء کو پکڑانہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ امکان خطاء موجود تھا اور وہ معصوم عن الخطاء نہیں تھے۔۔۔ لہذا کوئی شخص اگر یہ کہنا چاہے کہ ان سے خطاء ہوئی یہ نہ کرتے یا یوں کرتے تو بہتر تھا تو ہم اس کی زبان نہیں پکڑیں گے۔۔۔چونکہ ہم ان کی معصومیت کے قائل ہی نہیں ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تو خود اپنی بعض اجتہادی آراء میں خطاء کا احساس ہوا جن سے انہوں نے علی الاعلان رجوع کر لیا البتہ اپنی ایک خطاء کا وہ صرف اعتراف کرسکے اس کا ازالہ نہ ہوسکا وہ یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں خود انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر زور دے کر وظائف کے تعین کے معاملے میں ایک فرق رکھوایا یعنی یہ کے بدری صحابہ کو دوسروں کے مقابلے میں کافی زیادہ وظیفہ ملنا چاہئے اور اصحاب شجرہ کو بدری صحابہ رضی اللہ عنہما سے کم لیکن دوسروں سے زیادہ وظیفہ ملنا چاہئے۔۔۔ 
یہ فرق مراتب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رکھوایا اور اپنی حیات دنیوی کے آخری ایام میں آپ اس پر پچھتائے اس کی وجہ کیا تھی وہ بھی جان لیجئے یعنی یہ کہ اللہ تعالی کی نصرت اور مسلمانوں کے جوش جہاد اور شوق شہادت کی وجہ سے نہایت عظیم الشان فتوحات ہوتی چلی گئیں اور مال غنیمت بےحدوحساب دارالاسلام میں آنے لگا اب جو بڑے بڑے وظائف باقاعدگی سے ملے تو اس نے سرمایہ داری کی شکل اختیار کر لی اس لئےکے معاشرے میں بالفعل یہ صورت حال پیدا ہوگئی تھی کے صدقہ خیرات لینے والا کوئی مستحق ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا تھا بنابرین ارتکاز دولت کی شکل پیدا ہونی شروع ہوگئی اور وظائف میں فرق وتفاوت نے اصحاب دولت وثروت کے مابین بھی عظیم فرق وتفاوت پیدا کردیا اگر وہ دولت کسی ہموار ومساوی طریقے پر منتقل ہوتی تویہ صورتحال رونما نہ ہوتی یہ وہ چیزیں تھی جس کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کے۔۔۔ لو استقبلت ما استدبرت لاخذت فضول اموال الاغنیاءولقسمتہ بین الناس۔۔۔۔۔ او کما قال اب اگر کہیں وہ صورت حال دوبارہ پیدا ہوجائے جو اب پیچھے جاچکی ہے تو میں لوگوں کے اموال میں جو فاضل ہے وہ لے کر دوسرے لوگوں میں تقسیم کردوں۔۔۔ پس معلوم ہوا کے آپ رضی اللہ عنہ کو ایک احساس ہوا یہ بات میں نے صرف اس لئے عرض کی ہے کہ اہلسنت کا یہ موقف واضع ہوجائے کے خطاء کا احتمال و امکان صحابی کے بارے میں بھی ہوسکتا ہے لیکن ہم اس خطاء کو اجتہادی خطاء قرار دیں گے اور اسے نیک نیتی پر محمول کریں گے یہ بات ہر صحابی کے بارے میں کہی جائے گی یہی بات اور یہی رائے نہ صرف حضرت معاویہ، حضرت عمروبن العاص، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔۔۔ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی یہاں تک کے حضرات شیخین اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ذوالنورین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔۔۔ لہذا یہ بات پیش نظر رکھئے کہ اب گفتگو کا جو مرحلہ آرہا ہے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ایک اقدام سے متعلق ہے اس کے بارے میںبھی وہ رائیں ممکن ہیں ان کو یہ بات مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ نے سوجھائی (جو مسلمہ طور پر ایک نہایت ذہن وفہیم مدبر اور دور رس نگاہ رکھنے والے صحابی مانے جاتے ہیں)۔۔۔ کہ دیکھئے مسلمانوں میں آپس میں جو کشت وخون ہوا اور پانچ برس کا جو عرصہ آپس کی لڑائی جھگڑے میں گزرا کہیں ایسا نہ ہو کے آپ کے بعد پھر وہی حالات پیدا ہوجائیں لہذا اپنی جانشینی کا مسئلہ اپنی زندگی میں ہی طے کر کے جایئے اب کوئی شخص چاہے (اور ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے) تو وہ بڑی آسانی سے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ پر یہ فتوی لگادے کہانہوں نے کسی لالچ اور کسی انعام کی اُمید کی وجہسے یا چاپلوسی کے خیال سے یہ رائے دی معاذ اللہ۔۔۔ ہم یہ رائے نہیں دے سکتے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل ہیں جنہوں نے حدیبیہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر وہ بیعت کی تھی جس کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے اور اس بیعت پر سورہ فتح میں اللہ تعالی نے اپنی رضا کا اظہار فرمایا تھا۔۔۔ چنانچہ وہ اصحاب شجرہ میں سے ہیں پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پورے عہد حکومت میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے حامیوں میں رہے اور ہر مرحلے میں انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا لیکن وہ اُمت کے حالات کو دیکھ رہے تھے آپس کی خانہ جنگی کا انہیں تلخ اور دردناک تجربہ ہوا تھا۔۔۔ 
یہ ٦٠ ھجری کے لگ بھگ کا زمانہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پورے پچاس برس گزرنے چکے ہیں کبار صحابہ رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی عظیم اکثریت اللہ کو پیاری ہوچکی ہے اب تو صغار صحابہ میں بھی کچھ لوگ موجود ہیں اور یہ گویا صحابی کی دوسری نسل کے افراد ہیں جسے حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ شہید ہوچکے اب ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوچکے اب ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔۔۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اللہ کو پیارے ہوچکے اب ان کے بیٹے حضرت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ موجود ہیں اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں الغرض چند صغار صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمیعن کو چھوڑ کر تقریبا ننانوےفی صد لوگ تو بعد کے ہیں پھر وہ جوش و جذبہ ایمانی بھی پچاس سال کے بعد اس درجے کا نہ رہا تھا جو خلافت راشدہ کے ابتدائی پچیس سال تک نظر آتا ہے اس ضمن میں ‘‘ جواہر اندیشہ‘‘ اور شدت احساس کا عالم تو یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک موقع پر جب کچھ عیسائی آئے اور ان کو قرآن مجید کی آیات سنائی گئیں اور شدت تاثر سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔۔۔ ھکذا حتی قست القلوب یہی حال کبھی ہمارا ہوا کرتا تھا کہ قرآن مجید پڑھتے تھے اور سنتے تھے تو ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجایا کرتے تھے یہاں تک کے دل سخت ہوگئے۔۔۔ ذرا غور فرمائیے یہ بات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے متعلق فرمارہے ہیں کہ ہمارے دل سخت ہوگئے اسی طرح انتقال کے وقت حضرت عمررضی اللہ عنہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ‘‘ کہ میں اگر برابر برابر پر چھوٹ جاؤں تو بہت بڑی کامیابی سمجھوں گا‘‘ پھر یہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں جو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہیں ‘‘ میں قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں کہیں میرا نام ان منافقوں کی فہرست میں تو نہیں تھا جن کے نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں بتائے تھے؟؟؟۔۔۔ تو ان جلیل القدر صحابہ کی شدت احساس کی اگر یہ صورت تھی تو آپ سوچئے۔۔۔۔۔ لہذا ان حالات میں حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کی سمجھ میں مصالح اُمت کا یہی تقاضا آیا کے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنا کوئی جانشین نامزد فرمادیں چونکہ اس وقت فی الواقع بحیثیت مجموی امت کے حالات اس شورائی مزاج کے متحمل نہیں رہے ہیں جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا فرمایا تھا لہذا حالات کے پیش نظر ایک سیڑھی نیچے اُتر کر فیصلہ کرنا چاہئے چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے دلائل کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اصرار کیا کہ وہ اپنا جانشین نامزد کریں اور اس کی بیعت ولی عہدی لیں پھر ان ہی نے جانشینی کے لئے یزید کا نام تجویز کیا یہاں یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ جو شخس کسی بھی درجے میں حضرتمغیرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بدنیت قرار دے گا اس کا معاملہ اہلسنت سے جدا ہوجائے گا اہلسنت کا عقیدہ یہ ہے کہ ‘‘ الصحابہ کلھم عدول ‘‘ بدنیتی کی نسبت ہم ان کی طرف نہیںکرسکتے اختلاف کرسکتے ہیں ہم انہیں معصوم نہیں مانتے ان سےخطاء ہوسکتی ہے ان کے کسی فیصلے کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ یہ صحیح فیصلہ نہیں تھا کوئی یہ کہے تو اس سے اس کے ایمان عقیدے اور اہلسنت میں سے ہونے پر کوئی حرف نہیں آئے گا یہ رائے دی جاسکتی ہے لیکن جو شخص بدنیتی کو کسی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منسوب کرتا ہے تو جان لیجئے کہ وہ خواہ اور کچھ بھی ہو بہرحال اہلسنت والجماعت میں شمار نہیں ہوگا۔۔۔ اب تصویر کا دوسرا رُخ دیکھئے یعنی یہ کہ جن کی نیک نیتی ہر شبہ سے بالاتر ہے انہوں نے یہ محسوس کیا یہ عمل اسلام کے مزاج کے ساتھ مناسب ترکھنے والا نہیں ہے ان میں پانچ نام بہت مشہور ہیں تین تو اُمت کے مشہور ‘‘عبادلہ‘‘ مں سے ہیں یعنی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ایک حضرت حسین ابن علی رضی اللہ تعالٰی عنھما اور حضرت ابوبکر کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ انہوں نے یزید کی بیعت ولی عہدی سے انکار کیا اور ذہن میں رکھئے یہ تاریخی جملہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کا ہے کہ جب مدینہ کے گورنر نے ولی عہدی کی بیعت لینی چاہی تو انہوں نے بڑے غصے سے کہا کہ ‘‘ کیا اب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی سنت کے بجائے قیصر وکسری کی سنت رائج کرنا چاہتے ہو کہ باپ کے بعد بیٹا جانشین ہو‘‘۔۔۔ تیسری جانت یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ ان پانچ حضرات کو چھوڑ کر اُمت کی عظیم ترین اکثریت نے بیعت کر لی جس میں کثیر تعداد میںصحابہ بھی شامل تھے اب اس واقعے کے بعد اگر کوئی چاہے تو ان سب کو بےضمیر قرار دے دے کسی زبان کو تو نہیں پکڑا جاسکتا کہنے والے یہ بھی کہہ دیں گے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے ایمان دولت کے ذریعے خرید لئے تھے لیکن ذرا توقف کر کے غور کیجئے کہ ناوک نے تیرے صیدنہ چھوڑا زمانے میں کے مصداق سب سے پہلے اس زڈ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی آئے گی گویا انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہکے حق میں دولت کے عوض دستبرداری قبول کر کےاپنی خلافت فروخت کی تھی۔۔۔ 
معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔۔۔ 
لیکن ایسی بات کہنے والوں کو ٹھنڈے دلسے سوچنا چاہئے کہ اس طرح ہدف ملامت واہانت کون کون سی لائق صداحترام ہستیاں بنتی ہیں ہم ان کو نیک نیت سمجھتے ہیں جو بھی صحابہ کرام اس وقت موجود تھے ان میں سے جنہوں نے ولی عہدی کی بیعت کی اور جنہوںنے انکار کیا وہ سب کے سب نیک نیت تھے سب کے پیش نظر اُمت کی مصلحت تھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے جو ایثار فرمایا تھا وہ تو تاقیامت اُمت پر ایک احسان عظیم شمار ہوگا یہ بات بھی پیش نظر رکھئے ک جو دوسرا مکتب فکر ہے وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بھی امام معصوم مانا ہے لہذا ان کا طرز عمل خود ان کےاپنے عقیدے کے مطابق صدفی صددرست قرار پایا۔۔۔ اب آئیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کریں اہلسنت والجماعت اس معاملے میں یہ رائے رکھتے ہیںکہ پوری نیک نیتی سے آنجناب سمجھتے تھے کہ اسلام کے شورائی مزاج کو بدلاجارہا ہے حالات کے رُخ کو اگر تبدیل نہ کیا تو وہ خالص اسلام جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور وہ کامل نظام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا اس میں کجی کی بنیاد پڑجائے گی لہذا اسے ہر قیمت پر روکنا ضروری ہے یہ رائے ان کی تھی اور پوری نیک نیتی سے تھی پھر شہر کوفہ کے لوگ ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے برابر ان کو پیغامات بھیج رہے تھے اور کوفیوں کے خطوط سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بوریاں بھر گئی تھیں یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ کوفہ صرف ایک شہر ہی نہیں تھا بلکہ سیاسی اور فوجی حیثیت سے اس کی بھی بڑی اہمیت بھی لہذا آنجناب کی رائے تھی کے اہالیان کوفہ کے تعاون سے وہ حالات کا رُخ صحیح جانب موڑ سکتے ہیں۔۔۔ جیسا کے پہلے میںکہہ چکاہوں کے ایسے معاملات اجتہادی ہوتے ہیں اس رائے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے کے ولی عہدی کی جو رسم پڑگئی ہے وہ اسلام کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔۔۔لیکن وہ آگے جاکر اختلاف کرتےہیں ان کا اختلاف کامیابی کے امکانات کے بارے میں تھا وہ کوفہ والوں کو قطعی ناقابل اعتبار سمجھتے تھے ظاہر بات ہے کہ کسی اقدام سے پہلے خوب اچھی طرح جائزہ لینا ہوتا ہے کہ اقدام کے لئے جو وسائل وذرائع ضروری ہیں وہ موجود ہیں یانہیں۔۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان پر قتال مکہ میں فرض نہیں ہوا تھا بلکہ مدینہ میں ہوا جبکہ اتنی قوت بہم پہنچ گئی تھی کے قتال سے اچھے نتائج کی توقع کی جاسکے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی مخلصانہ رائے تھی کے کامیاب اقدام کے لئے جو اسباب درکار ہیں وہ فی الوقت موجود نہیں ہیں لہذا وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوکوفہ والوں کی دعوت قبول کرنے اور وہاں جانے سے باصراروالحاح منع کرتے رہے لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ کوفہ والوں کی دعوت قبول کرنی چاہئے اصل معاملہ یہ تھا کہ جو سچا انسان ہوتا ہے وہ اپنی سارگی اور شرافت میں دوسروں کو بھی سچا ہی سمجھتا ہے اور اپنی صداقت کی بنیاد پر دوسروں سے بھی حسن ظن رکھتا ہے کوفہ کوئی معمولی شہر نہیں تھا انتہائی اسٹریجٹک مقام پر واقع تھا یہ سب سے بڑی چھاؤنی تھی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں قائم کی گئی تھی اس لئے کہ یہ وہ مقام ہے جس سے اُس شاہراہ کا کنٹرول ہوتا ہے جو ایران اور شام کی طرف جاتی ہے لہذا حضرت حسین رضی اللہ عنہ یہ رائے رکھتے تھے کہ اگر کوفہ کی عظیم اکثریت ان کا ساتھ دینے کے لئے آمادہ ہے جیساکے ان کے خطوط سے ظاہر ہے ہوتا ہے تو اس کے ذریعے اسلامی نظام میں لائی جارہی تبدیلی کا ازالہ کیا جاسکتا ہے اور اس کا راستہ روکا جاسکتا ہے لیکن اس رائے سے اختلاف کر رہے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین یہ اختلاف بھی معاذ اللہ بدنیتی پر منبی نہیں تھا۔۔۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی اور یہ تینوں عبادلہ بھی نیک نیت تھے ان تینوں حضرات نے لاکھ سمجھایا کہ آپ کوفہ والوں پر ہرگز اعتماد نہ کیجئے یہ لوگ قطعی بھروسے کے لائق نہیں ہیں یہ لوگ جو کچھ آپ کے والد بزرگوار کے ساتھ کرتے رہے ہیں اس کو یاد کیجئے جو کچھ آپ کے برادر محترم کے ساتھ کر چکے ہیں اس کوپیش نظر رکھئے یہ عین ممکن ہے کہ ان کے دل آپ کےساتھ ہوں لیکن ان کی تلواریں آپ کی حمایت میں نہیں اُٹھیں گی بلکہ معمولی خوف یا دباؤ یا لالچسے آپ کے خلاف اُٹھ جائیں گے لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ایک فیصلہ ہے جس پر وہ کمال استقامت کے ساتھ عمل پیراہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس معاملہ میں فرمان خداوندی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کر رہے تھے یعنی فاذاعزمت فتوکل علی اللہ یعنی پہلے خوب غور کرلو سوچ لو امکانات کا جائزہ لے لو تدبر کو برؤئے کار لانا ضروری ہے سازوسامان کی فراہمی ضروری ہے یہ بھی دیکھو کہ جو صورت حال فی الواقع درپیش ہے اس کے تقاضے پورے کرنے کی اہلیت ہے یانہیں لیکن جب ان مراحل سے گزر جر ایک فیصلہ کر لو تو پھر اللہ پر بھروسہ رکھتے وہئے اقدام کرو۔۔۔ فاذا عزمت فتوکل اللہ یہ رہنمائی ہے قرآن وسنت میں۔۔۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس سمنٹ میں غلطی کی لیکن یہ ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے کسی بدنیتی سے یا حکومت واقتدار کی طلب میںیہ کام کیا معاذ اللہ ثم معاذ اللہ اہلسنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہرگزنہیٰں ہے۔۔۔ میں ذاتی طور پر اس بات سے کھلم کھلا اور سرعام اعلان براءت کرتا ہوں اگر کسی کو یہ شک و شبہ یا غلط فہمی ہو کہ معاذ اللہ میری یہ رائے ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اس اقدام میں کوئی نفسانیت یا کوئی ذاتی غرض تھی تو میں اس سے بالکلیہ بری ہوں الحمداللہ ثم الحمداللہ کسی کی یہ رائے اگر ہو توہو لیکن اچھی طرح جان لیجئے کہ اہلسنت والجماعت کے جو مجموعی اور مجمع علیہ عقائد ہیں ان میں یہ بات شامل ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام اور مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہ کے ضًمن میں کسی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بدنیتی اور نفسانیت کا حکم لگانے سے ایمان میں جانے کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہےبلاتخصیص ہم تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو عدول مانتے ہیںالبتہ معصوم کسی کو نہیں مانتے اور ہر ایک سے خطاء اجتہادی کے احتمال وامکان کو تسلیم کرتے ہیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نیک نیتی سےایک رائے تھی نیک نیتی ہی سے ایک اندازہ تھا اور جب اس پر انشراح ہوگیا تو دین ہی کے لئےعزیمت تھی۔۔۔ جب ولی عہدیکی بیعت کا مسئلہ مدینہ منورہ میں پیش ہوا تھا جو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ وہاں سے مکہ مکرمہ چلے گئے تھے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا چندحضرات کی رائے یہ تھی کہ مکہ مکرمہ کو ہی مرکز بنایاجائے اور اصل بنیاد یہ ہی ہے۔۔۔ اور اس ولی عہدی کےخلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے اپنی قوتوںکو مجتمع کیا جائے ابھی اس سلسلے میں کوئی مؤثر کام شروع نہیں ہوسکتا تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا اور بحیثیت دلی عہد حکومت امیر یزید کے ہاتھ میں آگئی جس کے بعد کوفہ والوں نے خطوط بھیج بھیج کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی وفاداری اور آپ کے ہاتھ پر بیعٹ کرکے جدوجہد اور اقدام کا یقین دلایا آنجناب نے تحقیق حالکے لئے اپنے چچا ذاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ بھیجا ان کی طرف سے بھی اطلاعات یہی موصول ہوئیں کے اہل کوفہ دل وجان ساتھ دینے کو تیار ہیںحضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے سفر کا ارادہکر لیا اور کوچ کی تیاریاں شروع کردیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ دونوں نےبہت سمجھایا کہ مکہ سے نہ نکلئے یہ دونوں حضرات یہ کہتے ہوئے روپڑے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر والوں کے سامنے ذبح کردیا گیا اسی طرح آپ کے اہل وعیال کے سامنے آپ کو بھی ذبح کردیا جائےجب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوچ کی تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اُن کی سواری کے ساتھ دوڑتے ہوئے دور تک گئے اور اصرار کرتےرہے ہیں کہ اللہ کے لئے باز آجائیں اور اگر جانا ہی ہے تو خواتین اور بچوں کوتو ساتھ لے کر نہ جائیںاور یہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کون ہیں؟؟؟ِ۔۔۔ رشتے میں ایک جانب سے حضرت حسین رضیاللہ عنہ کے چچا لگتے ہیں تو دوسری طرف نانا اس لئے کہ والد یعنی حضرت علی کے چچا زاد بھائی ہیں اور نانا یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی چچا زاد بھائی ہیں لیکن اس وقت محبت سے مغلوب ہوکر کہہ رہے ہیں اےابن اعم اللہ کے لئے باز آجاؤ کم از کم ان عورتوں بچوں کو مکہ مکرمہ ہی میں چھوڑ جاؤ لیکن نہیں دوسری جانب عزیمیت کا ایک کوہ گران ہے پیکر شجاعت ہے سراپا استقامت ہے نیکنیتی ہے جو فیصلہ کیا ہے اس پر ڈٹے ہوئے ہیں اس کے بعد راستے میں جب اطلاع ملی کے حضرت مسلم بن عقیل جو ایلچی اور تحقیق کنندہ کی حیثیت سے کوفہ گئے تھے وہاں شہید کردیئے گئے ہیں اور کوفہ والوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔۔۔ سب کے سب نے گورنر کوفہ کے سامنے حکومت وقت کے ساتھ وفاداری کا عہد استوار کر لیا ہے ۔۔۔ تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے سوچنا شروع کیا کہ سفر جاری رکھا جائے یامکہ واپسی ہو۔۔۔ لیکن ذہن میں رکھئے کہ ہر قوم کا ایک مزاج ہوتا ہے جو انسان کی شخصیت کا جزولاینفک ہوتا ہے عرب کا مزاج یہ تھا کے خون کا بدلہ لیا جائے خواہ اس میں خود اپنی جان سے بھی کیوں نہ ہاتھ دھو لینے پڑیں چنانچہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے عزیز رشتدار کھڑے ہوگئے کہ اب ہم ان کے خون کا بدلہ لئے بغیر واپس نہیں جائیں گے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شرافت اور مروت کا تقاضا تھا کہ وہ ان لوگوں کا ساتھ نہ چھوڑیں جو ان کے مشن میں ان کا ساتھ دینے کے لئے نکلے تھے یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے خون ناحق کا بدلہ لینے کے عزم کا اظہار کرنے والوں کا ساتھ یہ پیکرشرافت و مروت نہ دیتا لہذا سفر جاری رہا اسی دوران حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ عنہ جوچچا زاد بھائی ہیں ان کے بیٹے حضرت اعوان اور حضرت محمد ان کا پیغام لے کر آئے ہیں کہ ‘‘ اللہ کے لئے ادھرمت آو‘‘ لیکن فیصلہ اٹل ہے ان دونوں کو بھی ساتھ لیتے ہیں اور سفر جاری رہتا ہے حتی کے قافلہ دشت کربلا میں پہنچ گیا اُدھر کوفہ سے گورنر ابن زیاد کا لشکر آگیا یہ لشکر ایک ہزار افراد پر مشتمل تھا اور اس کو صرف ایک حکم تھا کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ دو صورتیں پیش کریں کہ آپ نہ کوفہ کیطرف جاسکتے ہیں نہ مکہ یا مدینہ کی طرف مراجعت کرسکتے ہیں ان دونوں سمتوں کے علاوہ جدھر آپ جانا چاہیں اس کی اجازتہے۔۔۔ یہاں ایک بات کو اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ یہ تیسرا راستہ کون سا ہوسکتا تھا۔۔۔ وہ راستہ تھا دمشق کا لیکن افسوس کے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اُسے اختیار نہ کیابلکہ آپ وہیں ڈٹے رہے اب عمروبن سعد کی قیادت میں مزید چار ہزار کا لشکر کوفہ پہنچ گیا اور یہ عمرو بن سد کون تھے؟؟؟۔۔۔افسوس کہ ان کے نام کو گالی بنادیا گیا ہے یہ تھےحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فاتح ایران اور یکے از عشرہ مبشرہ کےبیٹے جن کی حضرت حسین رضی اللہ کے ساتھ قرابت داری بھی ہے وہ بھی مصالحت کی انتہائی کوشش کرتے ہیں اور گفت شنید جاری رہتی ہے اب حضرت حسین رضی اللہ...
Next pag

No comments:

Post a Comment